فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی پالیسیوں کا موازنہ

قادر خان یوسف زئی
فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی پالیسیوں کا موازنہ
جنرل عاصم منیر، جو اب فیلڈ مارشل کا اعلیٰ ترین عہدہ پا چکے ہیں، پاکستان کی فوج کے سربراہ کے طور پر ایک ایسے دور میں زمام سنبھالے ہوئے ہیں جب ملک کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ فوج کے سربراہ کا کردار نہ صرف دفاعی پالیسیوں کو شکل دینا بلکہ قومی سلامتی اور خارجہ امور کو بھی تعاون فراہم کرتا ہے۔ جنرل عاصم منیر کی تقرری نومبر 2022ء میں ہوئی تھی، جب انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے چارج سنبھالا، اور مئی 2025ء میں بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد انہیں فیلڈ مارشل کے رینک سے نوازا گیا۔ یہ پروموشن نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے بلکہ اس امر کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ ان کی قیادت میں پاکستان نے پڑوسی ممالک کے خطرات کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔
سابق آرمی چیفس کی پالیسیوں کو دیکھیں تو جنرل پرویز مشرف کا دور 1999ء سے 2008ء تک تھا، جب انہوں نے نائب الیون کے بعد امریکہ کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو شامل کیا۔ ان کی پالیسیاں بیرونی امداد پر مبنی تھیں، جن سے فوج کو جدید ہتھیار ملے، لیکن یہ اتحاد اندرونی طور پر متنازع رہا اور بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں شورش کو ہوا ملی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی، جو 2007ء سے 2013ء تک چیف رہے، نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھا لیکن ڈرون حملوں کی وجہ سے تنائو بڑھا۔ ان کی پالیسیاں اندرونی سلامتی پر مرکوز تھیں، جیسے سوات آپریشن، لیکن افغانستان کی سرحد پر سیکیورٹی کے مسائل برقرار رہے اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پنپنے کا موقع ملا۔ پھر جنرل راحیل شریف کا دور 2013ء سے 2016ء تک، جو ضرب عضب آپریشن کی وجہ سے مشہور ہوا۔ انہوں نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی، جس سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے، لیکن افغانستان کی طرف سے سرحدی تنا اور ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ، جو 2016ء سے 2022ء تک چیف رہے، نے سفارتی سطح پر بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی، جیسے 2019ء کے پلوامہ حملے کے بعد ردعمل، لیکن ان کی پالیسیاں توسیع اور سیاسی الزامات کی وجہ سے متنازع رہیں۔ ان کے دور میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں بڑھیں، اور بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاری رہیں۔
ان سابق چیفس کی پالیسیوں میں ایک مشترکہ چیز یہ تھی کہ وہ بیرونی دبائو اور اندرونی سلامتی کے توازن پر مبنی تھیں، لیکن افغانستان کی سرحد پر مستقل سیکیورٹی اور بھارت کے ساتھ تنازع کے حل میں مکمل کامیابی نہ مل سکی۔ اب جنرل عاصم منیر کی قیادت کو دیکھیں، جو ایک تجربہ کار انٹیلی جنس افسر ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکے ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر فیصلے کرنا اور فوری ردعمل شامل ہے۔ ان کی پالیسیاں سابق چیفس سے مختلف ہیں کیونکہ وہ نہ صرف دفاعی طور پر مضبوط ہیں بلکہ سفارتی اور معاشی سطح پر بھی توازن رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر، انہوں نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے پر زور دیا، جو جنرل باجوہ کے دور کی تنازعات سے سبق ہے، اور فوج کی پیشہ ورانہ تربیت کو بڑھایا۔ ان کی خدمات میں سب سے اہم ہے دہشت گردی کے خلاف عزم، جو راحیل شریف کے ضرب عضب سے آگے بڑھ کر ہے۔ انہوں نے فتنہ الخوارج اور دیگر گروہوں کے خلاف آپریشنز کو تیز کیا، اور افغانستان کی طرف سے آنے والے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے سرحدی باڑ کو مضبوط بنایا۔
خاص طور پر افغانستان کے ساتھ تعلقات کو دیکھیں۔ سابق چیفس کے دور میں، خاص طور پر کیانی اور باجوہ کے وقت، افغان طالبان کے ساتھ بات چیت ہوئی لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کو پناہ دینے کا مسئلہ برقرار رہا۔ 2021ء میں طالبان کی واپسی کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، اور پاکستان نے متعدد بار شکایت کی کہ افغان سرزمین سے حملے ہو رہے ہیں۔ جنرل منیر نے اسے مختلف طریقے سے ہینڈل کیا۔ ان کی پالیسیاں سرحدی سیکیورٹی پر مرکوز ہیں، جیسے مارچ 2024ء میں افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے، جو ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان اب برداشت نہیں کرے گا۔ یہ اقدام راحیل شریف کے آپریشنز سے ملتا جلتا ہے لیکن زیادہ ٹارگٹڈ ہے، کیونکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر حملوں میں کمی آئی، اور افغانستان کے ساتھ تجارتی راستے کھلے رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ پالیسیاں پاکستان کو محفوظ بناتی ہیں کیونکہ اب سرحدی علاقوں میں استحکام ہے، جو سابق چیفس کے دور میں نہیں تھا۔
اب بھارت کے ساتھ تنازع کو دیکھیں، جو دو قومی نظریے کی بنیاد ہے۔ سابق چیفس نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کو ہینڈل کیا، جیسے مشرف کے دور میں کارگل، کیانی کے وقت ممبئی حملے کا ردعمل، اور باجوہ کے دور میں پلومہ۔ لیکن مئی 2025ء کا تنازع، جو بھارتی آپریشن سندور سے شروع ہوا، ایک نیا امتحان تھا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ وہ دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے، لیکن پاکستان نے اسے شہری علاقوں پر حملہ قرار دیا، جہاں 31سے زائد شہری شہید ہوئے۔ جنرل منیر کی قیادت میں پاکستان کا ردعمل متوازن تھا۔ ڈرون اور میزائل کا استعمال کرکے دفاع کیا گیا۔ یہ سابق چیفس کی پالیسیوں سے مختلف تھا کیونکہ یہ نہ صرف دفاعی تھا بلکہ سفارتی بھی، جیسے امریکہ کی ثالثی حاصل کرنا۔ ٹرمپ کی بھارت مخالف پالیسیاں، جیسے روسی تیل کی خریداری پر ٹیرف، نے بالواسطہ مدد کی، اور سیز فائر ہو گیا۔ یہ کامیابی جنرل منیر کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہے، جو انٹیلی جنس اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان بھارت کی جارحیت سے محفوظ رہا، اور لائن آف کنٹرول پر استحکام آیا۔
جنرل منیر کا دہشت گردوں کے خلاف عزم بھی قابل ذکر ہے۔ انہوں نے متعدد بار بیان دیا کہ پاکستان افغان سرزمین سے دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا، اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا، جیسے 2025ء میں دو دفعہ دورے۔ یہ مشرف کے دور کی طرح ہے لیکن زیادہ متوازن، کیونکہ اب پاکستان خود مختار ہے۔ ان کی پالیسیاں پاکستان کو پڑوسی ممالک سے محفوظ بناتی ہیں کیونکہ اب فوج نہ صرف ردعمل دیتی ہے بلکہ پیش بندی بھی کرتی ہے۔ یہ سب پاکستان کی ریاست کے وژن سے مطابقت رکھتا ہے، جو خودمختاری اور سلامتی پر مبنی ہے۔ جنرل منیر کی خدمات نے ثابت کیا کہ مضبوط قیادت سے ملک محفوظ رہ سکتا ہے، اور یہ سابق چیفس کی پالیسیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا نتیجہ ہے۔







