Column

عنوان: عقل، قرآن اور شخصیت پرستی – ایک فکری جائزہ

ٹوکیو، جاپان

مزمل مجید

عنوان: عقل، قرآن اور شخصیت پرستی – ایک فکری جائزہ

آج کا مسلمان بے چینی، پسماندگی، تفرقے اور فکری غلامی کا شکار ہے۔ یہ زوال محض سائنسی یا معاشی میدانوں تک محدود نہیں، بلکہ روحانی اور فکری سطح پر بھی ہم شدید گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس صورتِ حال کی سب سے بڑی وجہ اسلام سے دوری اور قرآن حکیم کو اپنی عقل، فہم و فراست سے نہ سمجھنے کی روش ہے۔ ہم نے دین کو شخصیات کے چشمے سے دیکھنا شروع کر دیا ہے، اور یہی شخصیت پرستی آج ہمیں قرآن کی روشنی سے دور رکھے ہوئے ہے۔

قرآن ایک زندہ اور ہمیشہ کے لیے ہدایت دینے والی کتاب ہے، جس کا پیغام ہر دور، ہر قوم اور ہر عقل رکھنے والے انسان کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فہم و ادراک، عقل و شعور عطا کیا ہے تاکہ وہ خود غور و فکر کر کے حق کو پہچانے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

“أَفَلَا تَعْقِلُونَ؟”
(کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟)

یہ سوال بار بار قرآن میں دہرایا گیا ہے، مگر افسوس کہ آج ہم نے اپنے فہم کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ہم نے دین کو صرف مولوی، پیر، یا کسی بزرگ کی باتوں تک محدود کر لیا ہے۔ خود قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، گویا ہدایت کے دروازے ہمارے لیے بند ہو چکے ہیں اور ہم نے ان کی چابی شخصیات کے ہاتھ دے دی ہے۔

شخصیت پرستی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان دین کو اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت کی بجائے فرد کی رائے سے دیکھتا ہے۔ اگر وہ شخصیت غلط بھی ہو تو اس کی اندھی تقلید اسے گمراہی میں ڈال سکتی ہے۔ یہی روش بنی اسرائیل میں بھی تھی، جہاں علمائے سوء نے دین کو بگاڑ کر لوگوں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔

اسلام ایک فطری دین ہے، جو ہر انسان کو اس کی عقل کے مطابق سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ دین کسی پر جبر نہیں کرتا، بلکہ دعوت دیتا ہے کہ:

“لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ”
(شاید کہ تم غور و فکر کرو)

لہٰذا ہمارا فریضہ ہے کہ ہم قرآن کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش کریں، سوال کریں، تحقیق کریں، اور جہاں راہنمائی کی ضرورت ہو، وہاں سچے علماء سے استفادہ کریں لیکن اندھی تقلید نہ کریں۔

قرآن خود کہتا ہے کہ:

“لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا”
(اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا)
(سورۃ البقرہ: 286)

اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری عقل کے مطابق آزماتا ہے، اسی کے مطابق ہمیں ہدایت بھی دیتا ہے اور اسی پر ہمارا اجر بھی مقرر فرماتا ہے۔ اگر ہم اپنی عقل کو زنگ آلود کر دیں گے، اسے استعمال نہ کریں گے، تو ہم خود اپنے اوپر ظلم کریں گے۔

اسلام کوئی وقتی یا وقتی وابستگی کا نام نہیں، بلکہ ایک تدریجی سفر ہے۔ جتنا سمجھ آئے، اتنا اپناؤ، اور اسے اپنی زندگی میں اتار لو تاکہ وہ اگلے مرحلے کے لیے رہنمائی بنے۔ دین کو جز وقتی نہیں، بلکہ مکمل طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔

آخر میں یہی دعا ہے کہ:
“اللّٰهُمّ أَرِنَا الحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ”
اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق دے، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی ہدایت دے۔

جواب دیں

Back to top button