Column

بھارت پر امریکی سختی اور پاکستان کے لیے نئے جغرافیائی امکانات

بھارت پر امریکی سختی اور پاکستان کے لیے نئے جغرافیائی امکانات
تحریر: جاوید اقبال

بین الاقوامی سیاست ایک شطرنج کی بساط کی مانند ہے جس پر ہر چال کا مطلب صرف فتح یا شکست نہیں ہوتا، بلکہ کئی بار یہ چالیں مستقبل کے راستے متعین کرتی ہیں۔ امریکہ کا حالیہ فیصلہ کہ وہ بھارت پر25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرے گا، جو 27اگست سے لاگو ہوجائے گا اس طرح بھارت پر مجموعی طور پر 50فیصد ٹیرف عائد ہو جائے گا جو بظاہر امریکہ کا ایک اقتصادی قدم معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے بین السطور کئی سیاسی، جغرافیائی اور تزویراتی معنی چھپے ہوئے ہیں۔ یہ اقدام محض تجارتی عدم توازن کے جواب میں نہیں، بلکہ اس سے زیادہ کسی عالمی نظم کو از سر نو ترتیب دینے کی کوشش کا حصہ محسوس ہوتا ہے، جس میں پاکستان کو نظر انداز کرنا امریکی مفاد میں نہیں رہا۔روس پر مغربی دنیا کی اقتصادی پابندیاں اپنی جگہ، مگر بھارت نی یوکرین جنگ کے بعد جس بے نیازی سے رعایتی نرخوں پر روسی تیل خریدا، وہ امریکہ کی ناک پر طمانچے کی مانند لگا۔ امریکہ کی اسٹریٹجک سوچ میں، بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک علاقائی توازن کا کردار سونپا گیا تھا۔ مگر جب بھارت نے اپنے مفاد کی بنیاد پر روس کے ساتھ قربت بڑھائی تو امریکی سامراجی سوچ کو گراں گزرا۔ یہ 25فیصد ٹیرف اسی ناراضی کا عملی مظہر ہے گویا امریکہ بھارت کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ دو کشتیوں کا سوار اکثر ڈوبتا ہے۔ یا تو امریکہ کا وفادار رہو، یا پھر انجام بھگتو۔
واشنگٹن کا الزام ہے کہ بھارت روس سے تیل کی بھاری مقدار میں درآمد کر رہا ہے اور ساتھ ہی خود دنیا کے دیگر ممالک پر بے تحاشہ ٹیرف لاگو کرتا ہے۔ یہ الزامات تجارت کے میدان میں امریکی بگاڑ کا رونا تو ہو سکتے ہیں، مگر اصل مدعا شاید کچھ اور ہے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ بھارت جیسے ابھرتے ہوئے ملک کو اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ نہ صرف ایشیائی بلکہ عالمی اسٹیج پر ایک ایسے پلیر کے طور پر ابھر سکتا ہے جس کے اپنے الگ نظریاتی و جغرافیائی مفادات ہوں گے۔ امریکہ کے لیے یہ ناقابلِ قبول بات ہے کہ وہ ایک ایسے اتحادی کو مضبوطی سے گلے لگائے رکھے جو ماسکو اور تہران جیسے امریکی حریفوں کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتا ہو۔ایسے وقت میں جب دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، امریکہ اپنے پرانے اتحادیوں کو دوبارہ اپنی چھتری تلے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کی روس سے قربت، اس کے برکس (BRICS) اتحاد میں بڑھتے ہوئے کردار، اور مغربی اثر سے بتدریج خود کو نکالنے کی حکمت عملی نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اسے اپنی اقتصادی طاقت کو دبائو کے آلے کے طور پر استعمال کرنا ہوگا۔ اسی تناظر میں یہ 25فیصد ٹیرف سمجھا جا سکتا ہے۔
اس منظرنامے میں پاکستان کی پوزیشن بہت اہم ہو جاتی ہے۔ ایک طرف پاکستان چین کے ساتھ اپنے دیرینہ تزویراتی تعلقات کو وسعت دے رہا ہے، دوسری جانب روس سے بھی حالیہ برسوں میں تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ تیل کی درآمد، گیس پائپ لائن منصوبے، اور دفاعی مذاکرات کے ذریعے اسلام آباد نے ایک متوازن خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ کو یہ بات ہرگز ہضم نہیں ہو رہی کہ پاکستان اس کے اثر سے باہر نکل کر بیجنگ اور ماسکو کے قریب ہو۔
لہٰذا، یہ ممکن ہے کہ امریکہ بھارت پر سختی کر کے ایک پیغام پاکستان کو دینا چاہتا ہو: کہ ہم تمہیں دوبارہ اپنے دائرے میں لانا چاہتے ہیں۔ اور اگر بھارت جیسے اسٹریٹجک پارٹنر کو سزا دی جا سکتی ہے، تو پاکستان جیسے قرضوں میں ڈوبے ملک کے لیے تو خیر اس سے بھی سخت رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں امریکہ کی حکمت عملی شاید اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ وہ پاکستان کو دھمکا کر نہیں، بلکہ لالچ اور تنہائی کے ذریعے دوبارہ قریب لانے کی کوشش کرے گا۔ IMFپروگراموں، FATFجیسے مالیاتی اداروں کے ذریعے دبا، اور اقتصادی مراعات کے وعدوں کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جائے گی کہ چین یا روس پر انحصار پاکستان کے لیے سودمند نہیں۔
بین الاقوامی رپورٹس بتاتی ہیں کہ سال 2024کے دوران پاکستان کی درآمدات کا بڑا حصہ چین سے رہا، جبکہ برآمدات اب بھی امریکہ اور یورپی یونین پر منحصر ہیں۔ اس تجارتی انحصار کا فائدہ امریکہ سفارتی میز پر لینا چاہتا ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی بحالی کا راستہ صرف داخلی اصلاحات سے نہیں، بلکہ بیرونی سرمایہ کاری اور مستحکم جیو پولیٹیکل شراکت داری سے بھی جڑا ہے۔ اگر پاکستان امریکہ سے مکمل فاصلہ اختیار کرتا ہے تو نہ صرف مالی ادارے اس پر دبائو ڈال سکتے ہیں، بلکہ تجارتی رعایتیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو امریکی دبا میں آ کر اپنی خودمختاری کا سودا کرنا چاہیے؟ کیا سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کو سرد خانے کی نذر کر دینا پاکستان کے حق میں ہوگا؟ ان سوالات کے جواب ہمیں تاریخ سے ملتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ مصالحاتی نوعیت کے رہے ہیں، جہاں وقتی فوائد کے بدلے طویل المیعاد نقصانات سہنے پڑے۔ چاہے وہ 80ء کی دہائی کی افغان جنگ ہو یا بعد از 9؍11دہشتگردی کے خلاف جنگ، پاکستان کو امریکی دوستی ہمیشہ مہنگی پڑی ہے۔
اب جبکہ دنیا بلاکوں میں بٹتی جا رہی ہے، پاکستان کے لیے سب سے موزوں حکمت عملی یہی ہو سکتی ہے کہ وہ کسی ایک کیمپ کا حصہ بننے کے بجائے اپنے قومی مفاد کو اولین حیثیت دے۔ چین کے ساتھ تعلقات محض جغرافیائی قربت پر نہیں، بلکہ اقتصادی ترقی کے مشترکہ خواب پر قائم ہیں۔ روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان نے اپنے تزویراتی افق کو وسعت دینا شروع کر دی ہے۔ ایران، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستیں بھی پاکستان کی توجہ کی مستحق ہیں جن کے ساتھ مل کر ایک نیا علاقائی اتحاد تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس سب کے باوجود یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کی مارکیٹ، مالیاتی اداروں پر گرفت، ٹیکنالوجی میں برتری اور بین الاقوامی اثر و رسوخ، ان سب سے مکمل لاتعلقی پاکستان کے لیے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک متوازن، محتاط اور خود مختار خارجہ پالیسی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔
پاکستانی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف وقتی دبا سی نکلنے کے لیے کسی ایک طرف نہ جھکے، بلکہ اقتصادی خود کفالت، علاقائی تعاون اور شفاف سفارت کاری کے اصولوں پر مبنی حکمت عملی اپنائے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی ملک کسی دوسرے کے لیے خیرات نہیں دیتا، ہر تعلق کے پیچھے مفاد چھپا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے مفاد کو سمجھنا اور اسے محفوظ بنانا ہوگا۔وقت آ گیا ہے کہ پاکستان عالمی سیاست کے تماشائی کے بجائے ایک فعال کھلاڑی بنے۔ بھارت پر امریکی ٹیرف ایک موقع ہے، جہاں سے ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ آزادی کی قیمت ہوتی ہے، مگر غلامی کا خمیازہ اس سے کہیں زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ ہمیں خود طے کرنا ہے کہ ہم کس راہ پر چلنا چاہتے ہیں۔
جاوید اقبال

جواب دیں

Back to top button