Column

بابا بزنجو و حاصل بزنجو جمہوریت پسند رہنما

بابا بزنجو و حاصل بزنجو جمہوریت پسند رہنما
تحریر: شکیل سلاوٹ

پاکستان اور خصوصا بلوچستان کی سیاست میں کچھ ایسے رہنما ہیں جنہوں نے اپنی سوچ، جدوجہد اور عوامی خدمت سے تاریخ میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ ان میں سرفہرست میر غوث بخش بزنجو اور ان کے صاحبزادے میر حاصل خان بزنجو ہیں۔ اگست کا مہینہ ان دونوں عظیم رہنمائوں کی برسی کا مہینہ ہے، جب اہلِ بلوچستان اور ملک بھر کے عوام انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
بابائے بلوچستان کہلانے والے میر غوث بخش بزنجو کا شمار پاکستان کے اُن رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل ہی عوامی حقوق، جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کے لیے آواز بلند کی۔ وہ بلوچستان کے گورنر بھی رہے اور ان کا وژن ہمیشہ اصولی سیاست، وسائل پر مقامی حق اور وفاق میں ہم آہنگی کے گرد گھومتا رہا۔
عوامی نیشنل پارٹی سے نیشنل پارٹی کا سفر بزنجو فیملی کی لئے اہم رہا ہے۔ بزنجو فیملی کی سیاست میں ایک اہم باب عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) سے نیشنل پارٹی تک کا سفر ہے۔ میر غوث بخش بزنجو کی سیاسی جدوجہد کا تسلسل اُن کے صاحبزادے میر حاصل خان بزنجو نے سنبھالا۔ ابتدا میں بلوچستان کی سیاست میں اے این پی ایک مضبوط پلیٹ فارم تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ بلوچستان کے مخصوص سیاسی و سماجی مسائل کے حل کے لیے ایک علیحدہ جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی۔
یہی وہ پس منظر تھا جس میں نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا، جس نے صوبائی خود مختاری، جمہوری اقدار اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کو اپنا منشور بنایا۔ میر حاصل خان بزنجو اس پارٹی کے روحِ رواں بنے اور انہوں نے اپنے والد کے وژن کو جدید سیاسی تقاضوں کے مطابق آگے بڑھایا۔
میر حاصل خان بزنجو شائستگی اور اصولوں کا پیکر رہیں ہیں۔ میر حاصل خان بزنجو نرم گفتار، بردبار اور وسیع المطالعہ سیاستدان تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بلوچستان کے عوام کی بھرپور نمائندگی کی۔ ان کی سیاست میں ذاتی مفاد کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل کے حامی رہے۔
میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ خدمت کا فریضہ ہے۔ ان کی برسی نہ صرف یاد کا دن ہے بلکہ اُن کے افکار اور اصولوں کو اپنانے کا عزم کرنے کا موقع بھی ہے۔ پاکستان اور بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے یہ دونوں رہنما ایک روشن مثال ہیں۔
پارلیمانی سیاست کے امین میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو کا نام اصول پسندی، جمہوری سوچ اور پارلیمانی اقدار کے استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگست کا مہینہ ان دونوں عظیم شخصیات کی برسی کی یاد دلاتا ہے، میر غوث بخش بزنجو 11اگست اور میر حاصل خان بزنجو 20اگست کو رحلت فرما گئی تھیں۔ اس لئے اگست میں اہلِ بلوچستان اور پاکستان بھر کے سیاسی و عوامی حلقے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست اس وقت جس بحرانی کیفیت اور بے یقینی کے دور سے گزر رہی ہے، اس میں ماضی کے بردبار، بااصول اور جمہوریت پسند رہنمائوں کی یاد شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ایسے میں میر غوث بخش بزنجو کا سیاسی فلسفہ اور طرزِ عمل نہ صرف ایک رہنمائی کا چراغ ہے بلکہ ملکی سیاست کو نئی سمت دینے کا موثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
میر بزنجو، کو ’’ بابائے جمہوریت‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، وہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے ان رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے ہر دور میں صبر، تدبر اور مکالمے کو ترجیح دی۔ وہ بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے مساوات، انصاف اور جمہوریت کے قائل تھے۔ ان کی سیاست کا محور یہ تھا کہ اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور قومی یکجہتی کو سب سے مقدم رکھا جائے۔
میر بزنجو کا یقین تھا کہ وفاق کی مضبوطی صوبوں کے جائز حقوق دینے سے ہوتی ہے۔ وہ صوبائی خود مختاری کے علمبردار اور آئین کی بالادستی کے سخت حامی تھے۔ فوجی آمریت ہو یا سیاسی انتقام کی سیاست، بزنجو صاحب نے ہمیشہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا۔ ان کی برد باری کا یہ عالم تھا کہ سخت سے سخت مخالفت کے باوجود مخالفین کے لیے شائستگی اور عزت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
آج پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج، عدم برداشت، ذاتی مفادات کی دوڑ اور عوامی مسائل سے لاتعلقی نے ایک ایسا خلا پیدا کر دیا ہے جو صرف میر بزنجو جیسے رہنمائوں کے طرزِ سیاست سے پُر ہو سکتا ہے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ سیاست ذاتی اقتدار یا انتقام کا نام نہیں، بلکہ یہ عوامی خدمت اور قومی ہم آہنگی کا راستہ ہے۔میر بزنجو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جمہوریت میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اختلافات کے باوجود ہمیشہ سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کے ساتھ مکالمے کو ترجیح دی۔ آج جب معاشرہ شدت پسندی اور تقسیم کا شکار ہے، تو ان کی یہ سوچ قومی مفاہمت کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
اگر موجودہ قیادت میر بزنجو کی طرزِ سیاست کو اپنا لے تو نہ صرف پارلیمانی روایات بحال ہو سکتی ہیں بلکہ عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد بھی مضبوط ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو صبر، اصول پسندی اور عوامی خدمت کے عزم سے لیس ہو اور یہ وہ اوصاف ہیں جو میر غوث بخش بزنجو کی سیاست کا خاصہ تھے۔
میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو کی سیاست نے یہ ثابت کیا کہ پارلیمانی جمہوریت ہی مسائل کے حل کا راستہ ہے۔ ان کی برسی کے موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نہ صرف انہیں یاد کریں بلکہ ان کے افکار کو عملی سیاست کا حصہ بنائیں، تاکہ بلوچستان اور پاکستان میں جمہوری روایات مزید مضبوط ہوں۔
شکیل سلاوٹ

جواب دیں

Back to top button