Column

راتاں ملاقاتاں اور باتاں

راتاں ملاقاتاں اور باتاں
تحریر: سیدہ عنبرین

کیلنڈر پر ماہ اگست کے نمودار ہوتے ہی ذہن تحریک پاکستان اور یوم آزادی کی طرف چلا جاتا ہے، یہ آج کالم کا موضوع نہیں ہے۔ 14اگست کو دارالحکومت میں ایک رسمی سی تقریب ہوگی۔ غیر ملکی سفیروں کو ڈنر، ایک پریڈ سرکاری، طوطوں اور محبوبوں کیلئے سرکاری اعزازات کا اعلان، میوزک پر تھرکتے کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، سرشام شہروں کی مختلف شاہراہوں پر ہلڑ بازی شروع ہوگی اور سحر تک جاری رہے گی۔ دنیا کو دکھانے کیلئے مزار اقبال اور مزار قائد اعظم پر پھول چڑھانے کا منظر بھی نظر آئیگا۔ سب کچھ فوٹو سیشن کیلئے ہوگا۔ صدق دل سے یہ حاضری ہوتی تو کاغذی پھولوں کی جگہ حقیقی پھول چڑھائے جاتے، کاغذی پھولوں سے تیار کردہ آرائشی گولائیاں سورج غروب ہونے کے بعد انہی دکانداروں کی دکانوں پر واپس پہنچ جاتی ہیں، جہاں سے خریدی جاتی ہیں۔
انگریز کی غلامی سے نکلے تو ہندو کی غلامی میں چلے گئے، وہاں سے دل بھر گیا تو امریکہ کی غلامی پسند آگئی، سائیڈ پروگرام کے طور پر چین اور حجاز سے وفاداری بھی نبھا رہے ہیں، آزادی کا نوحہ یہیں ختم نہیں ہوتا، اس نوحے کا ایک مکمل بند ہے، جو ملک پر صاحبان اقتدار کی لوٹ مار کے بارے میں ہے۔ اب آئیے 2025ء کے ماہ اگست میں جو کچھ ہونے جارہا ہے اسے ایک نظر دیکھتے ہیں۔ مودی کی خواہش تھی کہ پاکستان کے یوم آزادی سے قبل پاکستان پر میزائلوں کی برسات کرنے کے بعد بھارتی انتہا پسندوں کے دل یہ کہہ کر ٹھنڈے کر دے کہ اس نے بدلہ لے لیا ہے۔ اس حوالے سے ایک بیان گھڑ لیا گیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے نصف درجن جہاز گرائے ہیں۔ حیرت کی بات ہے قریباً ایک ماہ بعد بھارتی حکومت اور اس کے ایئر چیف کو یاد آیا کہ بھارت یہ کامیابی حاصل کر چکا ہے، بھارتی ایئر چیف سے پوچھنا چاہیے کہ وہ جنگ دسمبر 71ء یا جنگ ستمبر 65ء کی بات تو نہیں کر رہا؟، ماہ اگست میں ہونے والی ملاقاتوں میں پندرہ اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن میں ہونے والی ملاقات بہت اہم ہے، ٹرمپ اس ملاقات کیلئے بہت بے قرار تھا، لیکن پیوٹن اس ملاقات کو ٹالتا رہا کہ جب تک ملاقات کا ایجنڈا اور اس کا حاصل طے نہیں ہو جاتا، اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں، دریں اثنا وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس عرصہ میں یوکرین کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لے۔ یوکرین کی کمر توڑ دے اور اپنی شرائط پر ملاقات کر ے ۔ پیوٹن نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہیں، اس نے نا صرف یوکرین بلکہ امریکہ اور یورپ کو شکست سے دوچار کر دیا ہے جو گزشتہ دو برس میں بڑھ چڑھ کر روس کے خلاف یوکرین کی اخلاقی، مالی اور فوجی مدد کرتے رہے، امریکہ یہ جنگ بند نہیں کرا سکا بلکہ اس میں اس کی اپنی ناک کٹ گئی ہے۔ گمان ہے امریکہ اس بات پر تیار ہو گیا ہے کہ روس نے یوکرین کے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے وہ روس کے قبضے میں رہیں گے۔ یوکرین کو نیٹو کا حصہ نہیں بنایا جائیگا۔ نیٹو کی توسیع روس کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نہیں ہوگی اور یوکرین میں زیلنسکی حکومت کا خاتمہ کر کے نئے انتخابات کرائے جائینگے، جن میں روس دوست حکومت بنے گی امریکہ اپنی سرشت کے مطابق اس کے معاملات میں آئندہ دخل اندازی نہیں کریگا۔ امریکہ اگر اپنی اس حرکت سے باز آجائے تو پھر وہ امریکہ نہیں رہتا کچھ اور بن جائیگا، لیکن وہ وقتی طور پر یہ شرط مان لے گا اور ایک نئے دھوم دھڑکے سے اس جنگ کو بند کرانے کا کریڈٹ لے کر اسے اپنے جنگ بندی سی وی میں شامل کر کے اپنے نوبل پرائز کیس کو مضبوط کرنے کی کوشش کریگا۔ نوبل برائز کے حوالے سے ٹرمپ فرینڈز کا کہنا ہے ’’ ساڈی گل ہو گئی اے‘‘، لہذا یہ نوبل پرائز ٹرمپ کو ضرور ملے گا۔ ڈیل کے تحت یا ڈالر کے تحت نوبل پرائز مل بھی جائے تو یہ کلنک کا ٹیکہ ہوگا، اعزاز ہر گز نہ ہوگا۔ نوبل پرائز خریدنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ٹرمپ اس کی بنیاد پر ایک اور ٹرم کیلئے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کیلئے امریکی قوانین میں ترمیم کرنا چاہتا ہے، جو کسی بڑی کامیابی کے بغیر ممکن نہیں، یعنی تھرڈ ٹرم پر اس کی رال ٹپک رہی ہے۔ دوسری اہم ملاقات بھارتی وزیر اعظم مودی اور پیوٹن کے درمیان ہونے والی ہے، جس میں پیوٹن، مودی کو کچھ قوت بخش انجکشن لگائیں گے۔ تاکہ امریکہ کے مقابلے میں اس کے قدم نہ ڈگمگائیں اور وہ بھارت پر لگائے جانے والے بھاری ٹیرف اور ٹیرف بطور جرمانہ کے صدمے سے غش کھا کر نہ گرے۔ بھارت ، روس سے تیل خریدتا ہے، امریکہ اسے روس کی طرف سے ہٹا کر اپنا تیل بیچنا چاہتا ہے۔ مودی، پیوٹن ملاقات میں بھارت کو مزید سستا تیل بیچنے اور مزید سہولتیں دینے کا معاملہ فائنل کیا جائیگا، تاکہ امریکہ کو بتایا جاسکے کہ امریکی تیل اس کے مقابلے میں بہت مہنگا ہے۔ مودی امریکہ کی گود سے نکلنے کیلئے تیار ہو جائے تو اسے روس سے دیگر شعبوں میں بھی بہت سے مراعات مل سکتی ہیں، بالخصوص اس کا دفاعی اور حربی سامان امریکہ کی نسبت بہت سستا ہے، اس کی ڈیلیوری جلد ہو جاتی ہے، روس کی پوری کوشش ہے کہ بھارت کو امریکہ سے دور کر کے امریکی مفادات پر کاری ضرب لگائی جائے۔ اس معاملے میں اسے چین کا تعاون حاصل ہے۔ مودی کے دورہ روس کے بعد اسے چین جانا ہے، جہاں مشترکہ مفادات ہی ایجنڈے کا اہم نکتہ ہیں۔ اس میں امریکہ سے دوری اہم ترین ہے، اگر مودی نے یہ فیصلہ کر لیا تو برکس کو تیز رفتاری کے ساتھ متحرک کیا جائیگا۔ برکس کرنسی جلد مارکیٹ میں آسکتی ہے، اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا تو چین، بھارت اور روس فوری طور پر برکس کرنسی میں تجارت شروع کر دیں گے۔ جس سے ڈالر اپاہج ہو سکتا ہے۔ چین نے امریکی ٹریژری بانڈ تعداد میں فروخت کرنے شروع کر دئیے ہیں، روس بھی اپنے پاس موجود امریکی ڈالر کسی اور کرنسی میں بدل دینے کا ادارہ رکھتا ہے۔ ان ممکنہ اقدامات کے سبب امریکی صدر ڈونلڈ کے ہاتھ پائوں پھول رہے ہیں، اسے اس محاذ پر شکست ہو گئی تو اس کا اقتدار رخصت ہو سکتا ہے۔
یہودی لابی اس سے نقصان کے سودے کرنے پر ناراض دکھائی دیتی ہے۔ مزید برآں وہ ایران پر امریکی حملے کے نقصانات سے بھی مطمئن نہیں۔ پاکستان میں مری اور راولپنڈی میں ہونے والی اہم ملاقاتاں، باتاں اور راتاں بھی ہر زبان پر ہیں، آپ چاہیں تو ان لفظوں کی ترتیب بدل کر مزید چسکا لے سکتے ہیں۔
’’ تھا یقیں کہ آئینگی یہ راتاں کبھی ۔۔ ان سے ہوویں گی ملاقاتاں کبھی‘‘

جواب دیں

Back to top button