Abdul Hanan Raja.Column

موت کیا ہے اجزا کا پریشاں ہونا

موت کیا ہے اجزا کا پریشاں ہونا!
تحریر: عبد الحنان راجہ

اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
کہتے ہیں کہ نوحہ لکھا نہیں جاتا، لکھنے کو درد دل اور سوز جگر چاہیے۔ تحریر میں ندرت کے لیے اسے دل کے آنسووں سے سینچنا پڑتا ہے تب ہی بیان میں نکھار آتا ہے۔ اگر چہ میڈیکل سائنس نے ترقی کی اور خوب کی، فشار خون سے لیکر خون کے اندر شوگر کی مقدار سے لیکر دھڑکن سننے اور ماپنے کے آلات ایجاد کر لیے مگر صد شکر کہ درد کو ماپنے کا پیمانہ ایجاد نہ ہوا اور یہ پردہ اخفا میں۔ اس لیے کہ درد مندی قیمتی دولت، یہ ہر کسی کے نصیب میں کہاں۔
کسی نے خوب کہا:
درد دل پاس وفا جذبہ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا
زندگی کیا عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
ہے مرا ضبط جنوں، جوش جنوں سے بڑھ کر
تنگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا
موت محض دل کی دھڑکن بند ہو جانے، نبض کے تھم جانے یا سانسوں کے رک جانے کا نام نہیں بلکہ جن کے لیے دل دھڑکتے ہیں ان رشتوں کے کٹ جانے کا نام کہ اہل دل کے ہاں رشتوں اور تعلق کے نبھانے کو زندگی کا نام دیا گیا ہے۔رشتوں کی حرمت اور تقدس بارے نامور مذہبی سکالر صاحبزادہ منیر عالم ہزاروی نے کمال بات کی۔ جنازہ کے اجتماع میں جس جس نے دل کے کانوں سے سنی یقینا یہ اس کی روح تک ضرور اتری ہو گی۔ ’’ رشتوں کو جوڑیں توڑیں نہیں اور کندھا زندوں کو دیں کہ بعد از مرگ تو کندھا دینے والے بہت‘‘ تھوڑی ترمیم کے ساتھ: ’’ بات جو بروقت نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کے مصداق مرحومہ کا یہ عمل شاید صاحب بیاں کو آلقا ہوا کہ بر موقع بات کہہ کر ہم سب کے ضمیروں کو جھنجھوڑا، اور اگر ھم حقیقی زندگیوں میں اس عمل کو اپنا لیں تو رشتوں میں دراڑیں اور دوستیوں میں نفرتوں کا خاتمہ ممکن۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ھم نے اپنی پہچان بھلا دی اور رشتوں سے قطع تعلقی کے رجحان نے تو ضمیر ہی نہیں دل بھی مردہ کر دئیے۔ وہ کہتے ہیں کہ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں مگر افسوس دنیا احساس والوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔
اقبالؒ کے ہاں موت کا تصور کچھ الگ فرماتے ہیں کہ:
آہ غافل موت کا راز نہاں کچھ اور ہے
نقش کی ناپایداری سے عیاں کچھ اور ہے
موت ابدی زندگی کا دروازہ کھولتی ہے اور لذت دیدار نصیب ہوتی ہے۔ اور اگر مرنے والا خود نگر و خود گیر ہو تو موت اس کے لیے بقا۔ مگر لگتا ہے اب ایسی باتیں اور تحریریں بے معنی و بے لذت کہ زمانے کے انداز بدل گئے۔
روبہ بہ زوال اخلاقی و روحانی اقدار نے درد اور محبت کے جذبوں کو سرد کر دیا اور ان کی جگہ غصہ و نفرت کی گرمی نے لے لی۔ خود پسندی نے سماجی اقدار ہی جلا ڈالیں۔ غم روزگار کی وجہ سے پہلے پی رشتوں کے لیے وقت نہ تھا رہی سہی کسر سیل فون اور سوشل میڈیا کے نشہ نے پوری کر دی۔ بے چارہ سیل فون خود تو بیماری نہ تھا مگر اسے روگ ہم نے بنایا یہی تو وجہ ہے کہ دور جدید کی مائوں نے تربیت ذمہ داری بھی سیل فون پر ڈال دی۔ یہ ایسا المیہ کہ جس پر دل کڑھتا ہے مگر سبیل کی راہ سجائی نہیں دیتی۔
آج کے دور کا ایک اور المیہ قریبی عزیزوں کے درمیان معمولی تنازعات پر قطع تعلقی کا رجحان اور یہ دیہی آبادیوں میں کچھ زیادہ ہی اور کیا ہی عجب کہ بڑے اور گنجان شہروں میں تو انسان تنہائی کا اتنا شکار کہ دکھ درد بانٹنے کا وقت نہیں البتہ قصبوں اور چھوٹے شہروں میں سماجی اقدار و روایات موجود۔ ذرائع مواصلات کے شعبہ میں ترقی نے اگر زمینی فاصلے بڑھائے ہیں تو دوسری طرف دلوں کی دوریوں نے بھی جنم لیا ہے۔ تعزیت کا موقع ہو یا کوئی تقریب ، انسان انسان کے پاس بیٹھ کر بھی دور کہ رسمی کلمات اور سلام دعا کے بعد اپنے اپنے سیل فونز میں مگن۔ سیل فون کے استعمال کی بے تحاشا بڑھتی لت کو قابو میں کر کے ہی سماجی احیا ممکن۔ نئی نسل خصوصا بچوں میں سیل فون کے خطرناک رجحان کو دیکھ کر لگتا یوں ہے کہ آنے والے چند سال میں اس نشہ کے چھٹکارا کے مراکز قائم کرنا پڑیں گے جیسے نشہ کے۔
اب بھی دیکھیں کہ ہر سو رابطوں کی لاحاصل دوڑ، منفرد اور زیادہ سے زیادہ پسندیدگی ( لائیکس) و مقبولیت کے شوق نے اپنوں سے ہی نہیں دین سے بھی بیگانہ کر دیا پھر انجام سامنے۔ سوشل میڈیا پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ اور تنہائی کا شکار۔ ایسے درد ناک اور کرب ناک واقعات ہر روز سامنے کہ انہیں کندھا دینے کو بھی کوئی میسر نہیں۔
میری دانست میں سوشل میڈیا کی آمد ایسے ازدھے کی مانند کہ جو اپنے پھن کھولے اقدار، آداب، رویوں و رشتوں کے تقدس کو نگلنے کو تیار۔ سائنسی ترقی اور بگڑتی و دم توڑتی اقدار میں یہ نصیحت صائب مگر حقیقت یہی ہے جو بیان کی گئی ہی۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
بے شک ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے مگر قبل اس کے کہ آنکھیں بند ہوں ہمیں اپنی بند آنکھوں کو کھول لینا چاہیے کہ پھر یہ اختتام زندگی نہیں صبح دوام زندگی ہے۔
زندگی بھر درس و تدریس، خدمت دین سے وابستگی نے انہیں امر کیا اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا عمل اس سے سوا۔ تربیت کا آغاز گھر سے اور پھر معاشرے کی خواتین کی تربیت کا فریضہ بھی خوب ادا کیا۔ اللہ کا کرم رہا ، نظر کرم اور فیض کرم ( پیر کرم شاہ الازہری) بھی، نے ابدی سعادتوں سے نوازا۔ مرحومہ کی نذر درد الم۔
جیسے گرا ہو کوہ گراں مجھ پہ ٹوٹ کر
کوئی گیا ہے آج یوں دنیا سے روٹھ کر
آباد تجھ سے محفل علم و ادب تھی یاں
جانے سے تیرے ہو گئی ویران و بے اثر
تھی آبروئے بزم تو ہی تیرے بعد اب
ٹوٹے ہیں جام اور مے خوار دربدر
کیسے بیاں کیفیت غم کروں ضیا
لبریز ہے مرا الم و درد سے جگر
الوداع، الوداع اے راحت جاں الوداع

جواب دیں

Back to top button