ColumnRoshan Lal

پاکستان میں کیسا نظام ہونا چاہیے؟

پاکستان میں کیسا نظام ہونا چاہیے؟
تحریر : روشن لعل

وطن عزیز میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ قائد اعظمؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے ؟ اس سوال میں یہ استفسار کیا جاتا ہے کہ کیا آج کا پاکستان ویسا ہی ہے جیسا قائد اعظمؒ اسے بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظمؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے، اس سوال کا جواب اکثر دانشور، اپنی پہلے سے تشکیل شدہ سوچ کو بنیاد بنا کر دیتے ہیں۔ قائد اعظمؒ کے ارشادات کی فہرست بہت طویل ہے، یہاں ہر دانشور ان کی باتوں کو اپنے پہلے سے اخذ کردہ نتیجہ کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ دانشور یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظمؒ پاکستان کو کیسا ملک بنانا چاہتے تھے یہ جاننے کے لیے ان کے دیگر بیانات ایک طرف رکھ کر، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947ء کو کی گئی صرف اس تقریر کو مد نظر رکھنا چاہیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اس سوچ کے برعکس کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ چاہے قائد اعظمؒ کی 11اگست کی تقریر میں مذہبی آزادیوں کا ذکر موجود ہے مگر اس تقریر سے پہلے ، طویل عرصہ تک وہ جو کچھ کہتے رہے ، اسے سامنے رکھ کر یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔
پاکستان کی جس اولین اسمبلی سے قائد اعظمؒ نے خطاب کیا اس کا سب سے بڑا فریضہ نو آزاد ملک کے لیے آئین کی تشکیل تھا۔ اسمبلی کے جن ممبران کے ذمہ آئین سازی کا کام تھا ان لوگوں کا نہ تو اس طرح کے کاموں کا کوئی سابقہ تجربہ تھا اور نہ ہی ان کے سامنے کوئی ایسی مثال موجود تھی جس میں ایک نو آزاد ملک کے امور مملکت کی انجام دہی کے لیے کوئی دستور تشکیل دیا گیا ہو۔ ان لوگوں کے سامنے محض قائد اعظمؒ کی ذات تھی جن کے بیانات کو وہ رہنما اصولوں کا درجہ دیتے تھے۔ اس دور میں اگرچہ قائد اعظمؒ کی حیثیت ایک ماہر قانون دان کے طور پر مستند تھی مگر انہیں بھی آئین سازی کا براہ راست تجربہ حاصل نہیں تھا۔ البتہ قائد اعظمؒ کا یہ افتخار ضرور تھا کہ وہ جدید ریاستوں میں ہونے والی آئین سازی اور ان ریاستوں میں شہریوں کو دیئے گئے آئینی حقوق سے دوسروں کی نسبت زیادہ آگاہ تھے۔ اس کے علاوہ قائد اعظمؒ یہ بھی جانتے تھے کہ اقوام عالم میں انسانی حقوق کے چارٹر کی تشکیل کے لیے جو احساس موجود ہے اس کے پیدا ہونے کے تاریخی عوامل کیا رہے اور آنے والے وقتوں میں اس احساس کی ارتقا پذیری رک نہیں سکے گی۔ شاید اپنی اس علمیت اور ادراک کی بنا پر ہی قائد اعظمؒ نے پاکستان کے قیام کے وقت دستور ساز اسمبلی میں تقریر کے دوران جو نکات بیان کیے ان کی مماثلت قیام پاکستان کی جدوجہد کے دور میں ان کے کسی خطاب میں نظر نہیں آتی۔
یاد رہے کہ ہر جدوجہد میں کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے علاوہ کسی فرد یا گروہ کی سوچ کی نفی اور تردید کا پہلو بھی موجود رہتا ہے۔ جدوجہد کے بعد کا دور اس سے پہلے والے دور کا تسلسل تو ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود دونوں ادوار ، افراد کے مختلف قسم کے کردار کے متقاضی ہوتے ہیں۔ جدوجہد کے دوران صرف مقصد کے حصول کی خواہش پیش نظر ہوتی ہے۔ نعرہ بازی کے اس دور میں تحاریک اور شخصیات کے ساتھ ایسی باتیں منسوب ہو جاتی یا کر لی جاتی ہیں جو نہ تو کلیتہً ان کے مزاج کا حصہ اور نہ ہی مطلوب و مقصود ہوتی ہیں۔ جدوجہد کی کامیابی کی صورت میں ، جذباتی کیفیت سے بریت کے بعد اشیا کے اصل محاسن ظاہر ہوتے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں اگر قائد اعظمؒ کی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کا جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہو سکتا ہے کہ وہ نو آزاد ملک کے لیے کیسا نظام چاہتے تھے۔
اپنی تقریر میں مذہبی اور شخصی آزادیوں کے متعلق قائد اعظمؒ نے کہا ’’ آپ آزاد ہیں، آپ کامل آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں ، آپ کو پوری آزادی ہے کہ اپنی مسجدوں کا رخ کریں یا پاکستان کی ریاست میں جو آپ کی عبادت گاہیں ہیں ان میں آزادی سے جائیں۔ آپ کا کوئی بھی مذہب، ذات یا مسلک ہو سکتا ہے۔ ریاست کے امور کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے ۔ میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا کیونکہ یہ تو ہر فرد کے نجی عقیدہ کا معاملہ ہے بلکہ یہ بات ریاست کے باشندے ہونے کی بنا پر سیاسی معنوں میں ہے ‘‘۔
ہمارے ہاں اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ موچی دروازے کا سٹیج اور اسمبلی کا فلور دو مختلف مقامات ہیں، لہذا ان مختلف مقامات پر اختیار کیے گئے گفتگو کے انداز اور الفاظ کے چنائو میں فرق ہونا چاہیے۔ قائد اعظمؒ نے اس ملک میں کسی جلسہ عام اور اسمبلی سے خطاب کے فرق کو اپنی 11اگست 1947ء کی تقریر میں سب سے پہلے اور غیر علانیہ طور پر واضح کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے ذریعے اسمبلی میں موجود سامعین کو بتایا جدوجہد کا برانگیختہ اور برافروختہ جذبات کے اظہار کا دور گزر چکا۔ جو دور اب ہمارے سامنے ہے جدوجہد اس میں بھی بہت ضروری ہے مگر اس کے لیے پہلے سے مختلف اسلوب، مزاج اور طرز عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اپنے خطاب میں قائد اعظمؒ نے یہ اظہار کیا کہ ملک میں لوگوں کے کس قسم کے سیاسی خیالات ہیں اور ہندوستان کی تقسیم کے متعلق ان میں کس حد تک تنوع موجود ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قانون کے احترام اور پاسداری کے حوالے سے عوام کا رویہ کیسا ہے، عوام کی اخلاقی حالت کیسی ہے اور ان میں کس حد تک اقربا پروری کے جراثیم موجود ہیں۔ اپنے خطاب کے آخری حصے میں قائد اعظم نے واضح کیا کہ اس ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب ، نسلوں، قومیتوں اور اقلیتوں کو یہاں ہر حد تک مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔
قائد اعظمؒ نے اپنی 11اگست 1947ء کی تقریر میں جو کچھ کہا وہ صرف ان کے مخالفوں کے لیے ہی حیران نہیں بلکہ بعض حامیوں کے لیے بھی دھچکے سے کم نہیں تھا۔ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ان کے حامیوں نے ملک میں جس قسم کا نظام نافذ کرنے کی راہ ہموار کی اس کا ڈھانچہ بانی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی کی گئی تقریر کے مکمل برعکس تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کی تقریر کے برعکس جو نظام نافذ کیا گیا اسے جواز فراہم کرنے کے لیے بھی قائد اعظمؒ کے ریکارڈ پر موجود ارشادات کا سہارا لیا گیا۔ قائد اعظمؒ کی زندگی اور وفات کے بعد ملک کے نظام کی تشکیل کے لیے جو کشمکش شروع ہوئی وہ یہاں کبھی ختم نہیں ہو سکی۔ اس کشمکش کے دوران قائد اعظمؒ کی مذکورہ تقریر کے مطابق نظام نافذ کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو کمزور ہونے کے باوجود کسی بھی دور میں مکمل طور پر دبایا نہیں جاسکا۔ آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اگر پاکستان کا نظام قائد اعظمؒ کی 11اگست کی تقریر کے مطابق استوار نہ کیا گیا تو ملک کبھی مستحکم نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

Back to top button