Column

پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ

پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ
تحریر: واجد علی تونسوی
پاکستان پچھلے بیس سال سے دہشت گردی کے خلاف ایک مشکل جنگ لڑ رہا ہے۔ دہشت گردوں نے کبھی مسجدوں پر حملہ کیا، کبھی اسکولوں پر، کبھی بازاروں میں دھماکے کیے اور کبھی بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا۔ ایسے حالات میں حکومت اور فوج نے مل کر فیصلہ کیا کہ اب خاموشی سے بیٹھنا نقصان دہ ہوگا۔ اسی لیے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کیے گئے تاکہ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
پاکستان میں سب سے پہلا بڑا فوجی آپریشن 2007ء میں سوات میں کیا گیا، جسے ’’ راہِ حق‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس وقت جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے۔ اس کے بعد ’’ راہِ راست‘‘ اور ’’ راہِ نجات”‘‘جیسے آپریشن ہوئے، جن میں شدت پسند گروہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 2014ء میں شمالی وزیرستان میں ’’ ضربِ عضب‘‘ کے نام سے بڑا آپریشن کیا گیا، جس کی قیادت جنرل راحیل شریف نے کی۔ یہ آپریشن القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف تھا۔
پھر 2017ء میں ’’ ردالفساد‘‘ شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ اس کا مقصد ملک بھر میں چھپے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا ہے۔ ان آپریشنز کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی، خصوصاً کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالات بہتر ہوئے۔
ان فوجی کارروائیوں میں ہماری فوج نے بڑی قربانیاں دیں۔ آٹھ ہزار سے زیادہ فوجی شہید ہوئے۔ کئی افسر بھی جان سے گئے اور ہزاروں زخمی یا معذور ہوئے۔ صرف جانیں ہی نہیں، ملک کو مالی طور پر بھی نقصان ہوا۔ وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کو 150ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
آپریشنز کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ انہیں کیمپوں میں رہنا پڑا۔ کئی علاقوں میں اسکول، ہسپتال اور سڑکیں تباہ ہوئیں۔ بچوں اور عورتوں پر نفسیاتی اثرات بھی پڑے، لیکن ان سب قربانیوں کے بدلے میں جو امن حاصل ہوا، وہ بہت قیمتی ہے۔
قانونی طور پر یہ تمام آپریشن آئینِ پاکستان کی دفعہ 245کے تحت کیے گئے۔ یہ دفعہ کہتی ہے کہ حکومت فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے بلا سکتی ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997، نیشنل ایکشن پلان 2015اور آرمی ایکٹ 1952بھی ان آپریشنز کو قانونی تحفظ دیتے ہیں۔
اب ہم حالیہ باجوڑ آپریشن کی بات کریں۔ 2025ء میں باجوڑ اور ماموند کے علاقوں میں دہشت گردوں نے دوبارہ حملے شروع کیے۔ ان میں سرحد پار سے دہشت گرد آ کر فوجیوں اور عوام پر حملے کر رہے تھے۔
بعض افراد سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ فوج عوام کو مار رہی ہے۔ یہ الزام درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، نہ کہ عام شہریوں کے خلاف۔ دشمن کی چالاکی ہوتی ہے کہ وہ عوامی علاقوں میں چھپتے ہیں تاکہ فوج کو بدنام کیا جا سکے۔
فوجی آپریشن کے دوران فوج پوری کوشش کرتی ہے کہ عوام کو کم سے کم نقصان ہو۔ آئی ڈی پیز کے لیے کیمپ بنائے جاتے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں خوراک، دوا اور امداد فراہم کی جاتی ہے۔ مقامی لوگ خود کہتے ہیں کہ اگر فوج نہ ہوتی، تو یہ علاقے دہشت گردوں کے قبضے میں ہوتے۔
باجوڑ آپریشن کے دوران بھی مقامی لوگوں نے فوج کا ساتھ دیا ہے۔ نوجوان رضا کارانہ طور پر فوج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو امن کے حق میں اور فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کو پرامن ملک بنائیں۔ صرف فوج ہی نہیں، بلکہ سیاستدان، علما، استاد، نوجوان، میڈیا اور عام لوگ سب مل کر امن قائم کر سکتے ہیں۔ تعلیم، روزگار، انصاف اور بھائی چارہ ہی اصل حل ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ فوجی آپریشن صرف گولہ بارود کی جنگ نہیں، یہ دلوں کو جوڑنے کی کوشش بھی ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم فوج اور عوام کو آمنے سامنے کر دیں، لیکن ہمیں اپنے ہوش و حواس میں رہ کر سچ کو پہچاننا ہوگا۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں، وہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اگر ہم نے اتحاد، ہمت اور انصاف کے ساتھ اپنا راستہ جاری رکھا تو ان شاء اللہ ہمارا پاکستان ایک محفوظ، خوشحال اور پرامن ملک بن کر دنیا کے سامنے آئے گا۔

جواب دیں

Back to top button