صحت، اخلاقیات اور حقیقت کا المیہ

صحت، اخلاقیات اور حقیقت کا المیہ
تحریر: جاوید اقبال
جب ایک تھکا ہارا مریض کسی نجی کلینک یا اسپتال کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، تو اُس کے ذہن میں سب سے پہلا تصور ایک ایسے مسیحا کا ہوتا ہے جو اُس کی تکلیف کو سمجھے گا، اُس کے زخموں پر مرہم رکھے گا، اور اپنے تجربے، علم اور خلوص سے اُسے سکون عطا کرے گا۔ وہ سفید کوٹ پہنے، ایم بی بی ایس یا ایف سی پی ایس کی سند کے سائے میں کھڑا شخص، جس کی آنکھوں میں ہمدردی، چہرے پر سنجیدگی اور لہجے میں تسلی ہو، مریض کے لیے وہی تو مسیحا ہوتا ہے۔ لیکن جب یہی مسیحا دوا کی پرچی لکھتے وقت مریض کی بیماری کے بجائے فارما کمپنی کے تحفے، لیبارٹری کی کمیشن یا کسی مخصوص دوا کی فروخت کو مدنظر رکھے، تو پھر وہ مسیحا نہیں رہتا، وہ ایک سوداگر بن جاتا ہے، جو بیماری کا نہیں، صرف منافع کا علاج کرتا ہے۔
یہ بات اب محض افواہ یا تاثر نہیں رہی، بلکہ حالیہ تحقیق نے اس خطرناک رجحان کو عریاں کر دیا ہے۔ BMJ GLOBAL HEALTHمیں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ نے پاکستان کے طبی نظام کے اس پہلو کو بے نقاب کر دیا ہے جس پر طویل عرصے سے پردہ تو پڑا تھا مگر سرگوشیوں میں باتیں ضرور ہوتی تھیں۔ لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور آغا خان یونیورسٹی کے اشتراک سے کی گئی اس تحقیق میں کراچی کے 419نجی ڈاکٹروں کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق کے نتائج نہ صرف حیران کن تھے بلکہ دل دہلا دینے والے بھی۔ ان ڈاکٹروں میں سے جنہوں نے اخلاقیات سے متعلق باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی، ان میں سے 32.3فیصد نے تسلیم کیا کہ وہ فارما کمپنیوں سے تحائف یا مراعات لیتے ہیں۔ جبکہ اُن ڈاکٹروں میں جو ایسی کسی اخلاقی تربیت سے نہیں گزرے، اُن میں یہ شرح 41.9فیصد تک جا پہنچی۔
سوال یہ ہے کہ اگر اخلاقی رہنمائی حاصل کرنے والے ڈاکٹر بھی ان مراعات کو قبول کرتے ہیں، تو پھر وہ جو اخلاقی رہنمائی سے محروم رہے اور خالصتا تجارتی سوچ رکھتے ہیں ان معالجین کا عالم کیا ہوگا؟ اگر یہ تحقیق صرف 419کے بجائے 4000ڈاکٹروں پر کی جاتی تو شاید یہ تناسب مزید بھیانک نکلتا۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں مریض تجربہ گاہ کا نمونہ بن چکا ہے، اور ڈاکٹر سیلز مین۔ فارما کمپنیاں جس دوا کو فروغ دینا چاہتی ہیں، وہی دوا تجویز کی جاتی ہے چاہے مریض کو اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ ایک مخصوص لیبارٹری سے غیر ضروری اور مہنگے ٹیسٹ کروانا معمول بن چکا ہے۔ ہر پرچی کے پیچھے ایک مالی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے، ہر نسخے کے نیچی کوئی نہ کوئی کمپنی کی مداخلت دکھائی دیتی ہے۔
یہ صورتحال صرف مالی بددیانتی تک محدود نہیں رہتی۔ اس کے اخلاقی، سماجی اور طبی اثرات نہایت سنگین ہیں۔ سب سے پہلا نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ مریض کا اپنے معالج پر سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اُس کی جیب کو ہلکا کرنے کے لیے بلاوجہ دوائیں، ٹیسٹ یا فالو اپ وزٹ تجویز کیے جا رہے ہیں، تو اس کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ دوسرا بڑا نقصان مالی استحصال ہے، خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے مریضوں کے لیے، جو پہلے ہی معاشی دبائو کا شکار ہیں۔ جب ایک عام بخار کے مریض کو ہزاروں روپے کے ٹیسٹ تجویز کر دئیے جائیں، یا عام دوا کی جگہ مہنگی اور غیرضروری اینٹی بایوٹک دے دی جائے، تو یہ انسان دوستی نہیں بلکہ تجارتی درندگی ہوتی ہے۔
ایک اور مہلک نتیجہ طبی طور پر بھی سامنے آ رہا ہے، اور وہ ہے اینٹی بایوٹک ریزسٹنس۔ جب ڈاکٹرز غیر ضروری طور پر اینٹی بایوٹکس تجویز کرتے ہیں تو مریض کی قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے، جراثیم ان دوائوں کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں، اور وقت آنے پر وہی دوا بے اثر ہو جاتی ہے۔ عالمی سطح پر اس مسئلے کو ایک صحت کا بحران تسلیم کیا جا چکا ہے، مگر پاکستان جیسے ممالک میں ابھی تک اس پر سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔
اس غیر اخلاقی روش کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ دیانت دار، محنتی اور اصول پسند معالجین بھی اس بدنامی کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ جب ہر ڈاکٹر کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے، جب ہر نسخے کو کاروباری حکمت عملی سمجھا جائے، اور جب ہر دوا کے پیچھے کمیشن تلاش کیا جائے، تو اس کا سب سے بڑا نقصان اُن لوگوں کو ہوتا ہے جو واقعی مسیحا ہیں، جو دن رات خدمت کر رہے ہیں، اور جو اس نظام سے خود بھی نالاں ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے اخلاقیات کی تعلیم دینے میں ناکام ہو چکے ہیں؟ کیا میڈیکل کالجز میں ’’ طب‘‘ کو صرف پیشہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، خدمت کا جذبہ ختم ہو چکا ہے؟ یا پھر ریاستی ادارے اس بگاڑ کے سامنے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں؟ کیا پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور وزارتِ صحت کو اس رجحان کی سنگینی کا احساس ہے؟، اگر ہے تو وہ اس کے سدباب کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر ایسے قوانین اور ضابطے بنائے جائیں جو ڈاکٹروں اور فارما کمپنیوں کے درمیان تعلقات کو شفاف بنائیں۔ ہر دوا کی تجویز کردہ وجوہات کو مریض کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور فارما کمپنیوں کی طرف سے دئیے جانے والے تحائف یا مراعات کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جائے۔ لیبارٹریوں کے ساتھ ہونے والے کمیشن کلچر پر پابندی لگائی جائے اور جو ڈاکٹر یا ادارے اس میں ملوث پائے جائیں، ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔
ساتھ ہی، مریضوں میں بھی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اندھی تقلید کی بجائے سوال کرنے کی عادت اپنائیں۔ اگر کوئی ٹیسٹ یا دوا غیر ضروری لگے، تو وہ اس پر وضاحت طلب کریں۔ مریض کا حق ہے کہ وہ جانے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے اور کیوں۔
میڈیا، سول سوسائٹی اور شعبہ تعلیم کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اخلاقیات کو بطور مضمون اسکول اور کالج کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ طب کے شعبے میں داخلہ لینے والے طلبا کو عملی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصولوں کی سخت تربیت دی جائے۔ اسپتالوں میں اخلاقی نگرانی کی ادارے قائم کئے جائیں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ علاج تجارت نہ بنے۔
اگر ہم نے صحت کے میدان میں اخلاقیات کو بحال نہ کیا، تو آنے والے وقت میں ڈاکٹر کے ہاتھ شفا نہیں بلکہ کمیشن کے پرچے ہوں گے۔ ہمیں وہ دور واپس لانا ہوگا جب مریض اور معالج کا رشتہ اعتماد، خلوص اور خدمت پر مبنی ہوتا تھا۔ ہم سب نے اپنے بچپن میں ایسے ڈاکٹروں کی کہانیاں سنی ہیں جو اپنی فیس چھوڑ دیتے تھے، جو مریضوں کے گھروں میں جا کر مفت علاج کرتے تھے، جو دوا سے پہلے دعا دیتے تھے۔ آج ہمیں ایسے مسیحائوں کی دوبارہ ضرورت ہے۔ ہمیں انفرادی، ادارہ جاتی اور قومی سطح پر اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ صحت کو کاروبار نہیں بننے دیں گے۔
اگر ہم خاموش رہے، تو وہ دن دور نہیں جب دوا خانوں کے دروازے مالز میں کھلیں گے، جہاں مسیحا کمیشن دیکھے گا اور مریض بل کا حساب۔ تب شاید علاج سے زیادہ قبر کی جگہ سستی لگنے لگے۔







