
افسر شاہی کی شاہی، تازہ مثال
تحریر : سی ایم رضوان
پاکستان کے قیام سے قبل یہاں قابض برطانیہ کی حکومت تھی۔ یہ حکومت اس نے غیر منقسم ہندوستان بھر میں اپنے چند ہزار افسر جنہیں آپ بیوروکریٹ کہہ سکتے ہیں کے ذریعے قائم کی اور چلائی ہوئی تھی۔ ان افسران کو عوام کے حقوق اور سروسز کے ضابطوں کو پامال کر کے عیش و عشرت کے ساتھ مقامی غلاموں پر حکومت کرنے کا کھلا اختیار حاصل تھا۔ ہندوستان آزاد ہو گیا، تقسیم بھی ہو گئی اور پاکستان بھی معرض وجود میں آ گیا مگر اس نوزائیدہ آزاد مملکت کی افسر شاہی یعنی بیوروکریسی کا مزاج وہی شاہانہ رہا جو کہ انگریز کا تھا۔ حتیٰ کہ یہاں قائم ہونے والی عوامی حکومتوں کو بھی اس افسر شاہی نے سسٹم کے شکنجے میں جکڑ کر اپنا مطیع کر لیا اور خیر سے آنے والے تمام عوامی نمائندے بھی انہیں راضی رکھنے کی پالیسی پر ہی گامزن ہو گئے کیونکہ ہر بار اسی افسر شاہی نے انہیں الیکشن جتوانا یا ہروانا ہوتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے۔ جمہوری حکمرانوں کی اس غلامانہ روش کی ایک تازہ مثال گزشتہ دنوں پنجاب حکومت نے اس طرح پیش کی ہے کہ ایک ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو جی او ار ون میں سرکاری گھر الاٹ کرنے کے لئے اپنی پالیسی ہی تبدیل کر دی اور انہیں لاہور میں ایک کی بجائے دو گھر الاٹ کر دیئے ہیں۔
پنجاب حکومت نے یہ غیر معمولی فیصلہ کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور محمد فیصل ( پی ایس پی) کو لاہور کے پوش علاقے گارڈن آف ریذیڈنس یعنی جی او آر ون میں سرکاری گھر الاٹ کرنے کے لئے پنجاب ریزیڈنس الاٹمنٹ پالیسی 2024 میں نرمی کی خصوصی منظوری دے دی، سرکاری دستاویزات کے مطابق محمد فیصل بغیر کسی الاٹمنٹ کے جی او آر ون کے ہائوس نمبر 9، گولف روڈ میں مقیم ہیں اور ان کی جانب سے مستقل الاٹمنٹ کے لئے پنجاب حکومت اور محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سے باقاعدہ درخواست دی گئی، جس پر سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے واضح موقف اپنایا کہ محمد فیصل پالیسی کے تحت جی او آر ون میں سرکاری گھر لینے کے اہل ہی نہیں ہیں۔ دستاویزات کے مطابق محکمہ سروسز اینڈ جنرل نے یہ بھی کہا کہ پنجاب ریزیڈنس پالیسی 2024کی شق 3.1(c) کے مطابق صرف وہ افسر گھر کے اہل ہوتے ہیں جو ایس اینڈ جی اے ڈی کی کیڈر اسٹرینتھ پر ہوں جبکہ محمد فیصل پولیس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور یوں نہ صرف وہ پالیسی کے تحت سرکاری گھر لینے کے لئے نااہل ہیں بلکہ انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کے 10فیصد ہارڈ شپ کوٹہ میں بھی شامل نہیں کیا جا سکتا لیکن انہی دستاویزات کے مطابق جب محکمہ سروسز اینڈ جنرل نے ڈی آئی جی آپریشن لاہور محمد فیصل کو غیر قانونی طور پر گھر الاٹ کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ پنجاب حکومت کی پالیسی کے برعکس ہے اور اس کے لئے حکومت کو پالیسی میں نرمی لانا ہو گی۔ دستاویزات کے مطابق محکمہ سروسز اینڈ جنرل اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب احمد رضا سرور نے کہا کہ محمد فیصل حکومت کی پالیسی کے مطابق جی او آر ون میں گھر لینے کے لئے اہل نہیں ہیں لیکن پھر چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان اسی دستاویزات میں لکھتے ہیں چونکہ محمد فیصل پالیسی کے مطابق گھر کے لئے اہل نہیں ہیں لہٰذا پنجاب کابینہ اس پالیسی میں نرمی کرنے کی منظوری دے تو محمد فیصل کو جی او آر ون میں سرکاری گھر الاٹ ہو سکتا ہے، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری نے لکھا کہ ڈی آئی جی آپریشن لاہور محمد فیصل کو بارہ گالف لین کا سرکاری گھر الاٹ کر دیا جائے، جبکہ وہاں پہلے سے رہائش پذیر گریڈ 20کے آفیسر ظہیر حسین سے گھر خالی کرایا جائے اور انہیں وہاں الاٹمنٹ دی جائے جہاں ڈی آئی جی آپریشن لاہور محمد فیصل بغیر الاٹمنٹ کے رہائش پذیر ہیں۔ اس کے بعد محکمہ سروسز کو ہدایات دی گئیں کہ ڈی آئی جی آپریشن لاہور کے لئے گھر الاٹ ہونا ہے لہٰذا دوبارہ سمری بنائی جائے جس پر ایڈیشنل سیکرٹری ویلفئیر کیپٹن ر سمیع اللہ فاروق لکھتے ہیں کہ ایوان وزیر اعلیٰ پنجاب سے ٹیلی فون پر ملنے والی ہدایات کے مطابق ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو گھر الاٹ کرنے کی سمری اب دوبارہ بھیجی جاتی ہے۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہور محمد فیصل کے لئے جی او آر ون میں اب ہائوس نمبر 12گولف لین مختص کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک اور دلچسپ مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ اسی دستاویز میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ ’’ ہائوس نمبر 5، پٹیالہ ہائوس‘‘ کو باقاعدہ طور پر اب ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کی سرکاری رہائش قرار دیا جائے، حالانکہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کے لئے منظور شدہ گھر ہائوس نمبر فائیو ہے، مگر وہاں سابق ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف رہائش پذیر ہیں۔
ایک آئین و قانون والے ملک پاکستان میں چاہئے تو یہ کہ سرکاری افسران و ملازمین حکام بالا کے صرف اُن احکامات اور ہدایات پر عمل کریں جو قانون کے مطابق اور جائز ہوں۔ سرکاری ملازمین جو اصل میں عوام کے خادم ہیں اور جنہیں صرف عوامی مفاد ہی میں فیصلے کرنا ہوتے ہیں، سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران اُن پر لازم نہیں کہ وہ کسی دبائو میں آتے ہوئے غیر قانونی احکامات کی پیروی کریں۔ اگر عوامی عہدیداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی بے ضابطگی نظر آئے تو آخری حربے کے طور پر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ ہر سرکاری افسر چاہے بڑا ہو یا چھوٹا، بنیادی طور پر ریاست کا ملازم ہے اور ہر افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی قوانین پر کماحقہ اور ان کی روح کے مطابق عمل کرے۔ قوانین کو پس پشت ڈال کر اعلیٰ افسر یا انتظامی عہدیدار کی خوشنودی کے لئے کوئی ایسا کام کرنا جو قانون کے منافی ہو، کسی صورت مستحسن نہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں قیام پاکستان سے یہ چلن عام ہے کہ حکومتی عہدیدار سرکاری ملازمین کو ایسے احکامات جاری کرتے ہیں جو قانون کے خلاف ہوتے ہیں۔ وزارتوں کے سیکرٹری اور دوسرے عہدیدار ایسے غیر قانونی احکامات پر عمل درآمد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے ’’ صاحب‘‘ کو خوش کر دیا۔ اِس طرح وہ کسی وزیر یا وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے غیر قانونی احکامات پر عمل درآمد کر کے اُس کی’’ گڈ بک‘‘ میں شامل ہو جاتے اور خود بھی ایسے غیر قانونی کام کرنے لگتے ہیں، جس کا اُنہیں اختیار نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ اتنا دراز ہو گیا ہے کہ ہر کوئی قانون اور ضابطے کو موم کی ناک بنا لیتا ہے اور غیر قانونی احکامات کے ذریعے ذاتی منفعت کا حصول اپنا وتیرہ بنا لیتا ہے۔ افسر شاہی کو یہ سوچنا چاہیے کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ صدر اور وزرائے اعظم آتے جاتے رہتے ہیں لیکن سرکاری ملازم اپنے عہدوں پر موجود رہتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حکومتوں کا آلہ کار بنے بغیر قانون کے مطابق انتظامی مشینری کو رواں دواں رکھیں، اگر وہ من مانیاں کر کے یا اعلیٰ حکام کے غیر قانونی احکامات کی بجا آوری کر کے قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو خرابی پیدا ہوگی اور خرابی کا یہ دائرہ پھیل کر پورے معاشرے کے تار و پود بکھیر کر رکھ دے گا۔
افسوس کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے ہاں یہ خرابی در آئی کہ اعلیٰ بیوروکریسی نے سیاست میں اپنا عمل دخل اتنا بڑھا لیا کہ وہ حکومتوں اور سیاست دانوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے لگی۔ بعض اعلیٰ بیورو کریٹ گورنر جنرل اور وزیر اعظم بن بیٹھے۔ شروع کے کم و بیش دس سال تک اعلیٰ بیوروکریسی جب سیاست دانوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی رہی تو فوج کو بھی یہ احساس ہونے لگا کہ وہ بیورو کریسی سے زیادہ منظم اور اُن سے زیادہ لائق فائق ہے۔ طاقت کا منبع بھی اس کے پاس ہے، اِس لئے اگر بیورو کریسی حکومتی اُمور پر اثر انداز ہو سکتی ہے تو وہ کیوں نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فوجی سپہ سالار نے 58ء میں براہ راست حکومت پر قبضہ کر لیا، آئین کو منسوخ کر کے مارشل لاء لگایا اور پھر پارلیمانی نظام حکومت کی جگہ 1962ء کے آئین کے تحت صدارتی نظام حکومت نافذ کر دیا۔ یوں پہلے بیوروکریسی اور بعد میں فوج نے ملکی نظام حکومت میں جو عمل دخل حاصل کیا، وہ آج تک کسی نہ کسی انداز میں موثر چلا آ رہا ہے۔ ابتداء ہی سے اگر سرکاری افسروں نے صرف قانونی احکامات پر عمل درآمد کرنے کی روش اختیار کی ہوتی اور اعلیٰ حکام کے غیر قانونی احکامات پر عمل نہ کیا ہوتا تو آج معاشرے میں لاقانونیت کا دور دورہ نہ ہوتا، اس کا ایک بُرا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ افسر من مانیوں کی اِنہی راہوں پر چل نکلے جو آج تک کشادہ تر ہوتی جا رہی ہیں۔ انتظامی عہدیدار، سینئر اور جونیئر افسروں کو جو احکامات بھی دیتے ہیں وہ بلا چوں چرا مانتے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ سادہ چٹوں پر ایسے احکامات بھی جاری ہوتے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے کام ہو جاتے ہیں جن میں مختلف حضرات بھاری رقوم بھی کما لیتے ہیں اور سرکاری خزانے کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ اِس سلسلے کا ہی نتیجہ ہے کہ ملکی سطح پر بعض سرکاری عہدیدار من مانیوں پر اُتر آئے ہیں۔ یہاں بھی پولیس کی مثال دی جا سکتی ہے جسے سیاسی اثر و رسوخ کے تحت وزراء اور ارکان اسمبلی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے علاقوں میں اپنی مرضی کے ایس ایچ او کا تقرر کراتے ہیں اور پھر اُس کے ذریعے اپنے سیاسی اور ذاتی مخالفوں کا ناطقہ بند کرتے ہیں جبکہ سیاسی حکمران بھی ان کو جہاں چاہے استعمال کرتے ہیں۔







