Column

توکل علی اللہ

توکل علی اللہ
تحریر : صفدر علی حیدری

توکل علی اللہ کیا ہے
اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پر غیر متزلزل یقین کا دوسرا نام۔ یہ اہل ایمان کا بنیادی وصف ہے۔
توکل سے مراد ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرنا اور اپنے معاملات اس کے سپرد کر دینا۔ یعنی انسان کوشش کرنے کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ عربی زبان کے اس لفظ سے مراد یہ ہے کہ ’’ کسی کام کو کسی کے سپرد کرنا یا کسی پر بھروسہ کرنا ‘‘۔ اصطلاح میں کسی بھی معاملے میں اللہ پر مکمل بھروسہ کرنا اور اس کے فیصلے پر راضی رہنا۔
توکل ایک اہم اسلامی اصطلاح ہے جو مومن کو سکون اور اطمینان بخشتا ہے۔ خالق اکبر نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر توکل کی تلقین کی ہے۔ یہ انبیاء اوصیاء اولیاء اور اہل اللہ کا بنیادی وصف ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے تنہا رہ جانے کے بعد فرمایا ’’ میرا تو اللہ پر توکل ہے‘‘۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب اپنے بیٹوں کو مصر بھیجا تو فرمایا ’’ میرا فیصلہ تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اسی پر میں نے توکل کیا ہے اور اسی پر سب توکل کرنے والوں کو توکل کرنا چاہیے‘‘۔
تَوَکُّل اخلاقی فضائل اور سیر و سلوک کی منازل میں سے ہے۔ احادیث میں اسے ایمان کے ارکان میں سے شمار کیا گیا ہے۔ علمائے اخلاق مال کے حصول سے پہلے اور بعد انسان میں یکساں حالت کے پائے جانے کو انسان میں توکُّل کے موجود ہونے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ انسان میں توکُّل کا درجہ اس کے ایمان اور اس کی توحید سے تعلق رکھتا ہے ، جس قدر ایمان زیادہ ہو گا اسی قدر اس میں توکل زیادہ ہو گا۔
توکُّل محنت، کوشش اور توحید افعالی کے ساتھ کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا ہے کیوں کہ ظاہری علل و اسباب مستقل کسی قسم کی تاثیر نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کی تاثیر مشیت الٰہی کے تابع ہے۔ انسان اس بات کا معتقد ہو کہ اس جہان میں موثر صرف اور صرف ذات احدیت ہے۔ انسان کو یہ جان لینا اور دل سے مان لینا چاہیے کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی چیز انسان کے نفع و نقصان میں موثر نہیں ہے۔ انسان صرف اللہ سے اپنی امید وابستہ رکھے، اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور صرف اسی کے لیے ہر کام انجام دے۔
توکُّل کو تفویض کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہی، کسی عارف باللہ نے ان دونوں کے درمیان تعلق کی کیا حسین تعبیر کی ہے، ’’ تفویضْ میں انسان اپنے آپ کو قدرت کے بغیر دیکھتا ہے اور تمام امور میں صرف خدا کو موثر سمجھتا ہے لیکن توکُّلْ میں انسان خیر و نفع کے حصول میں خدا کو اپنا وکیل قرار دیتا ہے ‘‘۔
توکُّل رضا، تسلیم وغیرہ کے ساتھ بھی ارتباط رکھتا ہے۔ توکُّل کے مقام میں انسان خدا کو اپنا وکیل بناتا ہے لیکن دنیاوی امور کو اس کے ساتھ نہں ملاتا ہے، جبکہ رضا اور تسلیم کے مرحلے میں جو کچھ خدا نے اس کے لیے مقرر کیا ہوتا ہے اسی پر رضامند ہوتا ہے، اگرچہ وہ اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
توکُّل اور اس سے مشتق الفاظ 70مرتبہ قرآن میں آئے ہیں۔ قرآن متعدد مقام پر ایمان اور توکُّل کا اکٹھا تذکرہ کرتا ہے۔ بعض جگہوں پر توکُّل کو ایمان کے لوازم میں سے قرار دیتا ہے۔ مثلا سورہ انفال کی دوسری آیت میں انہیں مومن کہا گیا ہے جو صرف اللہ پر توکُّل کرتے ہیں۔ آیات قرآن کے مطابق اللہ توکُّل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی  ’’ جو اللہ پر توکُّل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے ‘‘۔ امام علیؓ نے توکل کو ایمان کے چار ستونوں میں سے ایک ستون قرار دیا ہے۔ کہتے ہیں توکُّل کے تین درجے ہیں، پہلا درجہ: اس مرحلے میں انسان اس طرح اللہ پر اعتماد کرتا ہے جس طرح اپنے وکیل پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ دوسرا درجہ: اس درجے میں توکُّل کرنے والے کا حال اللہ کی نسبت اس بچے کی مانند ہوتا ہے جو ماں کے بغیر کسی دوسرے کو نہیں پہچانتا اور ماں کو ہی اپنی پناہ گاہ سمجھتا ہے۔ تیسرا درجہ: علمائے اخلاق کے مطابق اس درجے میں توکُّل کرنے والا اپنے آپ کو اس طرح سمجھتا ہے جیسے وہ میت کو غسل دینے والے کے پاس ہے اور توکُّل کرنے والے کا اختیار مکمل طور پر اس دوسرے شخص کے پاس ہوتا ہے۔ عرفاء اس درجے کے توکُّل کا اعلیٰ ترین مرحلہ سمجھتے ہیں۔ توکُّل کا یہ مرحلہ حضرت ابراہیمٌ کے واقعے میں انہیں آگ کی طرف پھنکنے کے موقع پر نظر آتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
جس قدر انسان کا ایمان قوی ہو گا اسی قدر اس کے توکُّل کا درجہ قوی تر ہو گا۔ توکُّل کی علامت یہ ہے کہ منفعت اور اموال کے حصول سے پہلے اور بعد میں انسان کے اندر کسی قسم کی تبدیلی رونما نہ ہو ۔
سورہ طلاق کی تیسری آیت میں ہے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے ۔
مولا علیؓ سے منقول حدیث میں آیا ہے: ’’ جو کوئی بھی اللہ پر توکُّل کرے گا اس کے لیے سختیاں آسانیوں میں تبدیل ہو جائیں گی اور ان کے لیے اسباب مہیا ہو جائیں گے‘‘۔
اسی طرح، بقول امام رضا ’’ جو قوی ترین شخص بننا چاہتا ہے اسے چاہیے وہ خدا پر توکُّل کرے ‘‘۔
ظاہری علل و اسباب پر بھروسہ کرنا توحید افعالی کے ساتھ کسی قسم کی ناسازگاری نہیں رکھتا ہے کیوں کہ ظاہری علل و اسباب کوئی مستقل قدرت نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کی تاثیر مشیت خداوند اور دائرہ قدرت الٰہی کے تابع ہے۔پیغمبر اسلامؐ سے منقول ہے کہ پہلے شتر کو مہار کرو اور پھر توکل کرو۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے: ’’ میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلتا ہوں اور اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں، اور نہ کسی بھی کام کی قدرت میسر آ سکتی ہے نہ قوت، مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے‘‘۔ تو اس کو کہہ دیا جاتا ہے کہ: ’’ تو نے ہدایت پائی، تیری کفالت کر دی گئی، تجھے ہر شر سے بچا لیا گیا اور شیطان اس سے دور ہٹ جاتا ہے‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے، وہ ان لوگوں کیلئے ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ اور ’’ مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اہلِ یمن حج کے لیے جاتے تو زادِ راہ ساتھ نہ لیتے ، وہ کہتے تھے’’ ہم توکل کرنے والے ہیں، جب وہ مکہ پہنچتے تو لوگوں سے مانگتے پھرتے، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’ اور زادِ راہ لے لو، بے شک بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘۔ ایک سفر میں حضرت معاذ بن جبلؓ، رسولؐ اللہ کے ہم راہ تھے اور گفتگو کی دوران جب رسولؐ اللہ نے ان کے سامنے ایک خوش خبری کا ذکر کیا تو حضرت معاذؓ نے پوچھا: ’’ کیا میں یہ بات لوگوں کو بتا دوں؟‘‘، تو آپؐ نے فرمایا: ’’ انہیں یہ خوش خبری نہ سنائو تا کہ وہ اسی پر توکل نہ کر لیں‘‘۔ یعنی اگر انہیں یہ خوشخبری سنا دی تو وہ عمل کرنا چھوڑ دیں گے، اس لیے انہیں عمل کرنے دو۔
اللہ پر توکل کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’ جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی، وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔
اللہ پر توکل کو یہاں ایمان لانے کا لازمی تقاضا اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف قرار دیا گیا ہے۔ انسان اسباب و ذرائع اختیار کرنے کا مکلف ہے۔ چاہے وہ اسباب بظاہر کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں۔ اس لیے کہ یہ اسباب کی دنیا ہے اور یہاں اسباب و ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں۔
انبیائے کرام ٌ نے بھی اسباب و ذرائع اختیار کئے۔ بظاہر وہ اسباب و ذرائع کمزور تھے۔ حضرت ایوبٌ نے جب اللہ تعالیٰ سے اپنی بیماری کی شفا یابی کے لیے دعا کی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا’’ اپنا پائوں زمین پر مار، یہ ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کے لیے ہے‘‘۔
کیا پائوں کی صرف ایک ٹھوکر ہی سے زمین سے چشمہ پھوٹ سکتا ہے؟، کیا اللہ تعالیٰ اس کے بغیر چشمہ جاری نہیں کر سکتا تھا ؟، ضرور لیکن اس دنیا میں اسباب اختیار کرنے پڑتے ہیں، اس لیے انہیں بھی اپنی شفا یابی کے لیے سبب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسی طرح حضرت نوحٌ کو طوفان سے بچنی کیلئے کشتی بنانے کا حکم دیا گیا۔ نبی کریمؐ نے ہجرت کے موقع پر مکمل منصوبہ بندی کے بعد ہجرت کا سفر کیا۔ اسی طرح حضرت مریمٌ کو حالتِ زچگی میں کھجور کا تنا ہلانے کا حکم دیا تاکہ ان کی تکلیف کا سدباب کیا جا سکے۔ گویا بھروسہ اللہ پر ہو، اپنی صلاحیتوں پر نہیں۔ اللہ پر توکل کرنے کا اجر بھی ہے اور اس کے کئی ایک فوائد بھی ہیں۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات کے لیے کافی ہو جاتا ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو اللہ پر توکل کرتا ہے وہ اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو معاملات کی سمجھ بوجھ بھی عطا کرتا ہے۔ توکل کرنے کا اجر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو وہ انعامات دیتا ہے جو دنیا کے مقابلے میں بہتر بھی ہیں اور ہمیشہ رہنے والے بھی ہیں۔
اسی طرح رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’ میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ پوچھا گیا یا رسولؐ اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا، جو آگ سے داغ کر علاج نہیں کراتے، جھاڑ پھونک نہیں کراتے، بدفالی نہیں لیتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘‘۔
غزوہ حنین میں مسلمانوں کو اپنی ظاہری تعداد پر اعتماد ہو گیا جس کی ان کو فوری سزا ملی۔
اسرار الاولیاء میں بابا فرید الدین گنج شکرؒ توکل کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ عاقل وہی شخص ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں اللہ پر توکل کرتا ہے ‘‘۔
توکل کی تشریح اس طرح کی ہے کہ متوکل کے ایمان میں خوف و رجاء اور محبت ہو، خوف سے گناہ ترک کر دے اور رجاء سے اللہ کی اطاعت کرے اور محبت سے اللہ کی رضا کے لیے تمام مکروہات سے باز رہے ۔
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلتے تھے تو فرماتے تھے: ’’ بسم اللہ توکلت علیٰ اللہ‘‘، اسی کے ساتھ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں، اس بات سے کہ بھٹکوں یا کوئی مجھے بھٹکائے، پھسلوں یا کوئی مجھ کو لغزش میں ڈال دے یا ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے یا میں نادانی کروں یا کوئی میرے ساتھ جہالت کا معاملہ کرے۔
شب ہجرت ایک خطرناک مرحلے پر رسولؐ اللہ نے مولا علیؓ کو حکم دیتے ہیں کہ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جائو، ان شاء اللہ تم کو کوئی ایسی چیز لاحق نہ ہو گی جو تمہارے لیے نا پسندیدہ ہو۔ پس آپؓ دشمنوں کے نرغے میں آرام گاہ رسولؐ پر سکون کی نیند سوتے ہیں۔ دنیا والوں کی سازشوں اور پلانوں سے بے نیاز رسولؐ اللہ کے فرمان اور رب العالمین کی ذات پر توکل کر کے یہ ثابت کرتے ہیں: ’’ جس کا حامی ہو اللہ اس کو مٹا سکتا ہے کون؟۔
اقبالؒ نے اس ایمان افروز واقعہ کو کیسے خوب صورت انداز میں نظم کیا ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ؟
سئیں جانباز جتوئی نے کہا تھا:
میڈے دل نے اللہ ہو کیتا
میں رکھ توکل دہو کیتا
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے حبیبؐ، ہم گناہگاروں کے طبیبؐ کے وسیلہ سے توکل کی دولت عطا فرما۔ ہمیں اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا۔ ہمیں ہر معاملے میں بس اپنے ہی پر بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرما، آمین۔

صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button