
قیمت
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
رویوں کے حوالے سے مادہ پرستی کا عروج کہا جا سکتا ہے جو اس و قت دنیا میں رائج دکھائی دیتا ہے اور ہمیشہ سے دیکھا گیا ہے کہ معاشرتی اقدار کے حوالے سے مشرق کو بہرطور مغرب پر فوقیت حاصل رہی ہے جبکہ مغرب کی مادہ پرستی کا عالم یہ ہے کہ آج وہاں ’’ نوفری لنچ‘‘ جیسی اصطلاح عام ہے گو کہ مستثنیات ہنوز موجود ہیں ۔ دوسری طرف مشرقی روایات میں مادہ پرستی بتدریج اپنی جگہ بنا رہی ہے اور معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور انسان کسی حد تک روایتی رواداری و اخلاص سے دامن چھڑاتا دکھائی دیتا ہے جبکہ فطرتا بد طینت و بد خصلت افراد میں مادہ پرستی جبلت کے طور پر موجود ہوتی ہے، جس سے انسان خوش نصیبی سے ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔ عالمی تعلقات کے پس منظر میں دیکھیں تو اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ریاستوں کے مابین تعلقات میں بھی بنیادی اہمیت ہمیشہ سے ’’ قومی مفادات‘‘ کی رہتی ہے اور قومی مفادات کے سامنے ریاستوں کے درمیان کسی قسم کا تعلق آڑے نہیں آتا۔ ریاست کو وقت کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے دوسری ریاست کے ساتھ کب، کیسے اور کہاں، کیا عمل یا ردعمل دکھانا ہے کہ تعلقات بھی مضبوط رہیں اور قومی مفادات کا بھی تحفظ ممکن ہو سکے علاوہ ازیں! دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی تعلقات معمول کے مطابق رہیں یا کم از کم متاثر نہ ہونے پائیں۔ اس مقصد کے لئے ریاستیں ہمیشہ ماہر ترین سفارتکاروں کی خدمات حاصل کرتی ہیں تا کہ عالمی سطح پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل فوائد و نقصانات کا بھرپور اندازہ ہو سکے اور کسی حد تک مستقبل کی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھوس بنیادوں پر دیرپا فیصلے کئے جائیں، جو ریاست کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہوئے، قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ گزشتہ دہائی میں بغور دیکھیں تو امریکہ و بھارت کے تعلقات انتہائی گرم جوش رہے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے تذویراتی حلیف بن چکے تھے گو کہ سوویت یونین کی تحلیل سے قبل تک، بھارت سوویت یونین کا تذویراتی حلیف رہا مگر حالات و واقعات کا بروقت اندازہ کہیں یا قومی مفادات کے لئے بہتر متبادل سمجھیں، بھارت انتہائی سبک روی کے ساتھ، امریکی کیمپ میں جا شامل ہوا، جس کا یقینی طور پر بھارت کو مختلف جہتوں میں واضح طور پر فائدہ ہوا۔ بھارتی طلباء ہوں یا بھارتی اعلی تعلیم یافتہ و ہنر مند افراد، گزشتہ دو/اڑھائی دہائیوں سے نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر مغربی ممالک میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں سرفہرست دکھائی دئیے جبکہ مسلمان طلباء کے لئے تو جدید علوم کے دروازے تک مغرب نے، دہشت گردی کے جھوٹے لیبل لگا کر، بند کر دئیے۔ حتی کہ بھارت کے موجودہ انتہا پسند وزیراعظم پر، بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر، ایک وقت میں امریکہ نے اپنا ویزا تک بین رکھا لیکن بعد ازاں ’’ قومی مفاد/پالیسی‘‘ کی تحت نہ صرف ان کو وزیراعظم تسلیم کیا گیا بلکہ ان کی انتہائی گرمجوشی کے ساتھ آئو بھگت بھی کی گئی، ان کی ہر خواہش کی تکمیل میں حد سے گزر جانا ایک معمول ٹھہرا، بالخصوص بھارت کے اندر جھوٹی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد بلا تحقیق و تفتیش پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے میں بھارت کے ہم زبان ہونا، بھارت کے اشتعال آمیز روئیے پر پاکستان کو دبانا/خاموشی اختیار کروانا، بھارت کو بلاجواز ’’ گرم تعاقب‘‘ کا استحقاق دینا وغیرہ ایک معمول ہی تھا۔ پاکستان میں کھیلوں کے میدان سونے کرنے ہوں یا پاکستان کی معاشی صورتحال پر اس کے خلاف سازشیں رچانا، جس کے ثبوت بہرحال اب سامنے آ چکے کہ ان میں بھارت خود ملوث رہا ہے، اس کے باوجود یہ کہنا کہ پاکستان میں معاشی بے ضابطگیاں نہیں، بھی درست نہیں، بہرحال پاکستان میں ابتری کے پیچھے بہرطور کہیں نہ کہیں بھارت کا کھرا ضرور ملتا رہا ہے۔
امریکہ ممکنہ طور پر بھارت کے بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے مجبور ہو لیکن درحقیقت امریکہ اس وقت بھارت سے نالاں ہوا جب بھارت نے اپنے قد سے بڑے اقدامات شروع کئے، جس میں سب سے اہم اور نازک ترین معاملہ امریکہ سمیت کئی دیگر مغربی ممالک میں خالصتان رہنماؤں کو قتل یا قتل کی منصوبہ بندیوں کا انکشاف ہوا۔ بالخصوص کینیڈا میں ہونے والی ایسی وارداتوں کے ثبوت بھی بھارت کے سامنے رکھے گئے اور شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ مغربی ممالک کی ساکھ ان کے لئے سب سے اہم ہے اور بھارت خالصتان تحریک کو دبانے کے لئے، اس ساکھ پر براہ راست حملہ آور ہو رہا تھا، جو مغرب کے لئے قطعا قابل قبول نہیں تھی۔ دوسری طرف ان سب حقائق کے باوجود، امریکہ بھارت کو بہرطور چین کے خلاف استعمال کرنے کے لئے بے چین تھا، اس مقصد کی خاطر امریکہ نے یکے بعد دیگرے بھارت کو تین/چار ایسے اتحادوں کا رکن بنایا، جس کا مقصد ہی چین کے ساتھ پنجہ آزمائی تھا یا چین کی مسلسل بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنا تھا۔ بدقسمتی سے بھارت نے ایسی مہم جوئی کی کوشش ضرور کی لیکن اب تک اسے چین کے مقابلے میں منہ کی کھانی پڑی اور چین تبت میں مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور ہزاروں مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت، چین کے ہاتھوں گنوا چکا ہے۔ عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات کے مطابق، بھارت ایک طرف امریکی مضبوط حلیف بھی ہو اور دوسری طرف وہ روس سے سستا تیل بھی خرید رہا ہو نہ صرف سستا تیل خریدے بلکہ اسے اپنی ریفائنریز میں صاف کرکے دیگر ممالک کو عالمی قیمت پر بیچ کر منافع بھی کمائے، امریکہ کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے؟ بالخصوص جب امریکی معیشت بذات خود ڈگمکا رہی ہو، تب ایسی ہوشیاریاں کیسے اور کب تک امریکہ برداشت کر سکتا کہ وہ تو ’’ نوفری لنچ‘‘ پر ایمان رکھتے ہیں اور کسی بھی صورت اس کی اجازت نہیں دیتے لہذا بھارت جب تک اس سہولت سے مستفید ہو سکتا تھا، اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے لیکن کیا اب ٹرمپ کی پالیسیوں میں اسے یہ سہولت میسر ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی میں سامنے آ گیا ہے جب اس نے ابتداء میں بھارت پر 25%ٹیرف کا اعلان کیا اور بھارت کو روس سے تیل لینے سے منع کیا مگر بھارت نے ’’ آزاد خارجہ پالیسی‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے، روسی تیل کی خرید پر پابندی سے انکار کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے تذویراتی حلیف نے ٹیرف بڑھا کر50%عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، یہاں مجھے سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا قول برمحل محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی دوستی، دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ بھارت اپنی آزاد خارجہ پالیسی کا بھرم رکھتے ہوئے شنید ہے کہ چین سے تعلقات بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے جارہا ہے لیکن کیا بھارت یہ کر پائے گا؟
یہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب تو چین کے ساتھ ملاقاتوں پر منحصر ہے لیکن چین نے ایک واضح اعلان، پاکستان کے حوالے سے کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ، پاکستان کی قیمت پر معاملات طے نہیں کرنے جارہا ہے، تو بھارت کے لئے یہ کیسے ممکن ہو گا کہ کل تک جو بھارت بیک وقت پاکستان و چین کے خلاف محاذ آرائی میں سرگرم ’’ دو محاوذوں کی پالیسی‘‘ پر گامزن تھا، آج بڑے محاذ سے معاملات ٹھیک کرنے کے لئے پر تول رہا ہے؟ چین نے کبھی بھی کسی بھی ملک کے ساتھ تجارت کے لئے انکار نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین کبھی اپنے بنیادی موقف سے پیچھے بھی نہیں ہٹا البتہ موقف پر عملدرآمد کروانے کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے، موخر ہو سکتا ہے لیکن کبھی موقف سے دستبردار نہیں ہوا ۔ چین کا تبت پر حق دعوی آج بھی پوری طرح قائم ہے اور وہ کسی بھی طور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں، تو کیا بھارت، چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے لئے، چین کا حق دعوی تسلیم کرتے ہوئے، تبت سے دستبردار ہو جائے گا یا خیر سگالی کے طور پر تبت، چین کو تحفتا دے گا؟ بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ پاکستان کی قیمت پر تعلقات نہیں بنائے جائیں گے، تو اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے اور پاکستان کا چین کے ساتھ ہمیشہ کھڑے ہونا ہے، خواہ ظاہری طور پر معاملات کچھ ہوں لیکن پس پردہ پاک چین تعلقات واقعتا کوہ ہمالیہ سے بلند ہیں۔ اس وقت ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بھارت، کسی بھی ریاست کے ساتھ ایسے تعلقات بنانے میں ناکام رہا ہے اور وقتی مفادات کے حصول میں کوئی دیرپا و اصولی موقف بھارت کی جانب سے نہیں دیکھا گیا، جس کا نتیجہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس وقت کوئی بھی عالمی طاقت کھڑی ہو نے کے لئے تیار نہیں اور آگے کنواں پیچھے کھائی والا معاملہ دکھائی دے رہا ہے کہ اگر چین کی طرف جائے تو کیا ’’ تبت‘‘ کی صورت قیمت چکانی ہو گی یا روس سے تیل خریدتے ہوئے 50%امریکی ٹیرف کی صورت ’’ قیمت‘‘ چکانی ہو گی یا سب سے بڑھ ’’ مودی جی‘‘ کی صورت ادائیگی ہو گی!!!







