سخاوت اور مفاہمت

سخاوت اور مفاہمت
تحریر :خالد غور غشتی
جب تک مسلمان ایک دوسرے پر اپنے جان و مال نثار کرنے کا جذبہ رکھتے تھے، جہاں بھر میں وہ ممتاز تھے اور ان کا زمانے بھر میں سکہ چلتا تھا۔ آج پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہونے کے باوجود نہ صرف اسلام روز بہ روز کمزور ہو رہا ہے، بلکہ مسلمان بھی اپنی شناخت کھو رہے ہیں۔
یہاں چند اہم نکات پیشِ خدمت ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر آج بھی ہم اقوامِ عالم پر اپنا سکہ جما سکتے ہیں۔
جذبہِ ایثار: مسلمانوں کی برسوں سے روایت رہی ہے کہ جب وہ کھانا بنا لیں تو اس وقت تک نہیں کھاتے، جب تک وہ رشتے داروں اور ہمسایوں میں نہ بانٹ دیں، آج اس روایت کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
محلے داروں اور رشتے داروں کا خیال رکھنا: اسلام ہمیشہ انفرادی سطح پر نہیں، اجتماعی سطح پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس لیے اس نے رشتے داروں کے ساتھ ساتھ اردگرد کے چالیس گھروں کی دیکھ بھال کرنے اور ان کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے غم اور خوشی میں شریک ہونے، بلکہ ان کے ساتھ ہر معاملے میں ہاتھ بٹانے اور میانہ روی کا رویہ رکھنے کا درس دیا ہے۔
صدقہ، خیرات اور زکوٰۃکا حکم: اسلام نے ضرورت مند رشتوں داروں اور ہمسایوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے یہ نظام متعارف کروایا، جو اب ضرورت مندوں کو دینے کی بجائے دینی اداروں اور خیراتی اداروں کو دیا جانے لگا ہے۔ یوں رشتوں میں دراڑیں پڑ گئی اور معاشرہ مختلف اخلاقی برائیوں کا شکار ہونے لگا۔
خاندانی اور علاقائی تعلقات: یہ مسلمانوں میں بڑے مضبوط ہوتے تھے اور اپنے علاقے اور خاندان سے باہر لوگ شادیاں تک نہیں کرتے تھے۔ ان کا یہ دعویٰ ہوتا تھا کہ جب تک خاندان اور علاقہ کمزور ہے تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ افسوس آج بڑی بڑی عمارتیں بنانے والوں کو نہ علاقے کی خبر ہوتی ہے، نہ خاندان کی معلومات کہ کون کن حالات سے گزر رہا ہے۔ اجتماعی امور اور باہمی محبتیں: کچھ عرصہ قبل بہت کم کام روزگار ہوتے تھے، اس لیے لوگ اینٹ بنانے کے بھٹوں، کھیتوں میں گوڈی کرنے، مکان بنانے، کنویں بنانے، پانی کے سفری جہاز پر کام کرنے اور دیگر کاموں کے لیے ایک محلے اور گاں سے اکٹھے ہو کر جاتے تھے۔ یہ روایت اس قدر خوش گوار تھی کہ ایک محلے میں پچاس گھر ہوتے تو اکثر لوگوں کا روزگار ایک ہی جگہ سے لگ جاتا تھا اور ان کو پریشان ہونے کی حاجت نہیں رہتی تھی۔
کچی مسجدیں اور پکے ایمان: پہلے ہر علاقے میں دو چار جامع مساجد ہوتی تھیں، جو کچی ہوتی تھیں، جس میں حسب توفیق سب چندہ اور وظیفہ دیتے تھے اور ان مساجد کے امام بھی کوئی نہ کوئی کام دھندہ کرتے تھے، وہ کسی کے محتاج نہ ہوتے تھے، سب ان کے محتاج ہوتے تھے، جب وہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ یا فتویٰ صادر کر دیتا تو سب اس کی بات پر ادب سے سر جُھکا لیتے اور اس کی بات کو اہل علاقہ حتمی فیصلہ سمجھتے تھے۔
پردہ اور عورت کی عزت: ہر گھر کا مرد پہلے کسی نہ کسی کام روزگار پر لگا ہوتا تو عورتیں دن بھر ان کی غیر موجودگی میں ایک دوسرے کے گھروں میں جمع ہو جاتیں، ان کے بچے ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے اور وہ ایک دوسرے کا گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ بعض خواتین گائے، بھینس اور بکری رکھ کر ان سے گھر کا نظام چلاتی تو بعض کپڑے اور گھریلو استعمال کی اشیا فروخت کر کے گزارہ کرتی تھیں۔ ہر گھر میں میلے کا سماں ہوتا اور عورتیں اور بچے ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر کھاتے پیتے اور بعض اوقات سب پڑوسی عورتیں ایک گھر میں جمع ہو رنگا رنگ کھانے بنا کر کھاتیں۔ کوئی کسی کے پاس مہمان بن کر جاتا تو گھر میں موجود مرغیوں کے انڈے یا گائے کا دودھ ساتھ لے جاتا۔ دُور دُور تک غربت، افلاس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ سب مرد کام کرتے تھے اور گھروں میں دن بھر صرف عورتوں اور بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں۔
بس جب سے مرد نکمے ہوئے ہیں، عورتوں کے ساتھ عورت اور گھر کی رونق ہوئے ہیں، دن بھر محنت مشقت کی بجائے گھر کے قیدی اور مال و دولت کی فراوانی ہوئی تو سب نے بانٹنا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے آج سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہم بے چین ہیں، اللہ ہمیں پھر سے وہ کُھویا ہوا مقام، محنت، خلوص اور رشتے عطا فرمائے۔ انسان تو سراسر محبت ہے، نہ جانے ہم چند سکوں کی خاطر کس ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
خالد غورغشتی







