Column

ہم سب کے اندر ہے، ایک فرعون

ہم سب کے اندر ہے، ایک فرعون
تحریر : احمد نبیل نیل

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی قدر صرف تب ہوتی ہے جب اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہو، کوئی بااثر، کوئی طاقتور۔ اگر آپ اکیلے ہیں، کمزور ہیں یا کسی سپورٹ سسٹم کے بغیر ہیں، تو سمجھ لیجیے کہ آپ اس معاشرے کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہاں طاقتور صرف اپنی طاقت دکھاتے ہیں۔ کمزور کو سہارا دینا تو دور کی بات، اُسے روند دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر آپ کی وجہ سے کسی ایک انسان کی زندگی میں بھی آسانی پیدا ہو جائے، تو میرے نزدیک یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہم میں سے اکثر اس نیکی کی طرف بڑھنے کے بجائے دوسروں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنانے میں لگے ہیں۔ ہمیں ذرا سا بھی اندازہ ہو جائے کہ سامنے والا اکیلا ہے، بے سہارا ہے، تو ہم اپنی انا، طاقت اور ’’ فرعونیت‘‘ کے مظاہرے شروع کر دیتے ہیں ، پھر چاہے وہ دفتر ہو، کاروبار، یا کوئی اور معاملہ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی شخص کمزور ہوتا ہے، یا عام حالات میں جیتا ہے، تو اُس میں شرافت، انکساری اور نرمی نظر آتی ہے۔ مگر جیسے ہی اُسے کوئی عہدہ، اختیار یا طاقت ملتی ہے، اُس کے لہجے میں تلخی، نظر میں غرور، اور برتائو میں تکبر آجاتا ہے۔ لگتا ہے جیسے وہ باقی سب کو کمتر اور خود کو برتر سمجھنے لگتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا ’’ فرعون‘‘ بننے کے خطرے میں ہوتا ہے۔ فرعون صرف تاریخ کا کردار نہیں، بلکہ ایک رویہ ہے ، جو ہمارے اندر بھی موجود ہے۔ جب ہم کمزور پر ظلم کرتے ہیں یا دوسروں کو نیچا دکھانے میں خوش ہوتے ہیں، تو دراصل ہم اسی فرعونیت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔
آپ سرکاری ہسپتالوں، دفاتر یا تھانوں میں چلے جائیں، وہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ غریب ہیں، سادہ لباس پہنے ہوئے ہیں، یا ان کے ساتھ کوئی بڑی ’’ سفارش‘‘ نہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری دفاتر کا چوکیدار اور چپڑاسی بھی آپ کو ایسے حقارت سے دیکھتے اور ایسی بدتمیزی سے بات کرتے ہیں جیسے آپ نے ان کا قرض دینا ہو۔ اور اس کے مقابلے میں اگر کوئی بااثر، طاقتور اور امیر شخص ہو تو اس کے سامنے ہماری آواز بھی نہیں نکلتی، کیونکہ بس تو ہمارا صرف کمزور پر ہی چلتا ہے۔
بڑے بڑے ظالموں کے خلاف تو ہم چیخ اٹھتے ہیں، مگر اپنے الفاظ، رویے اور برتائو کا محاسبہ نہیں کرتے۔ آپ اپنے روزمرہ کی زندگی میں ذرا نظر دوڑائیے، آپ کو بہت سے چھوٹے بڑے فرعون نظر آئیں گے، جو اپنی اپنی طاقت اور بساط کے مطابق کمزور پر ظلم کرتے ہیں، اُسے اپنا آپ دکھاتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ہمارے رویے کا ہے۔ دفاتر میں موجود عملہ بات ہی اتنی بدتمیزی سے کرتا ہے کہ آپ کا خوشگوار موڈ بھی شدید خراب ہو جاتا ہے، اور پھر آپ کا دل ہی نہیں کرتا کسی سرکاری دفتر میں جانے کا۔ ظلم صرف لاٹھی، گولی یا تشدد سے نہیں ہوتا۔ ظلم یہ بھی ہے کہ آپ کسی کی بے بسی دیکھ کر اسے اور دبائیں، اور کسی غمزدہ کو مزید تنہا کر دیں۔ یاد رکھیے! یہ زندگی کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔ ہر شخص اپنی ایک الگ جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے اگر آپ کسی کی زندگی آسان نہیں بنا سکتے، تو کم از کم اسے مشکل بھی نہ بنائیں۔ لوگوں کو سنیے، ان کا درد سمجھیے اور ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اکثر لوگ صرف اس لیے امید چھوڑ دیتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔
کبھی کبھی کسی کا ہاتھ تھام لینا، خاموشی سے ساتھ بیٹھ جانا، یا صرف اتنا کہنا کہ ’’ میں تمہیں سن رہا ہوں‘‘ یا ’’ میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘ ، کسی ٹوٹے ہوئے انسان کے لیے سب کچھ بن سکتا ہے۔ ہم سب اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ کسی باہر والے نے آ کر نہیں بنایا، یہ ہم نے خود بنایا ہے۔ لہٰذا اگر ہم ہی اپنی ذمہ داریاں نہ سمجھیں، ہم ہی سہارا نہ بنیں، ہم ہی دوسروں کی تکلیف کو نہ سمجھیں ، تو یاد رکھیے، کل کو یہی ظلم، یہی تنہائی، یہی بے بسی ہمارے دروازے پر بھی دستک دے سکتی ہے۔
میری یہ گزارش ہے اُن تمام افراد سے جو کسی نہ کسی سرکاری کرسی پر بیٹھے ہیں ، ہسپتال ہو یا دفتر، تھانے ہو یا کوئی اور ادارہ ، کہ خدارا، لوگوں سے محبت اور لحاظ سے بات کیجیے۔ یاد رکھیے، جو شخص آپ کے سامنے کھڑا ہے وہ شوق سے نہیں، مجبوری سے آیا ہے۔ آپ کا نرم لہجہ، ایک مسکراہٹ، اور خلوص بھرا رویہ ، کسی کی آدھی پریشانی کم کر سکتا ہے۔ اور یہی بات اُن تمام ساتھیوں کے لیے بھی ہے جو کسی دفتر یا ادارے میں کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کا کوئی کولیگ کسی ذاتی الجھن یا پریشانی میں ہے، تو اُس کا سہارا بنیے، اُس پر مزید بوجھ نہ ڈالیے۔ کیونکہ یہ زندگی بہت ناپائیدار ہے اور ہو سکتا ہے کہ جس کو آج ہم نظر انداز کر رہے ہیں، کل کو وہی ہماری سب سے بڑی ضرورت بن جائے۔
ہم بھی کسی نہ کسی کے لیے ’’ فرعون‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔
معاشرے کی خرابی صرف حکمرانوں، وڈیروں، سرمایہ داروں یا افسر شاہی کی وجہ سے نہیں ہوتی ، یہ ہم سب سے مل کر بنتی ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی کمزور پر اپنا غصہ نکالتا ہے، جو کسی بے بس کی تذلیل کرتا ہے، جو کسی غریب کو انسان نہ سمجھے۔۔۔ وہ معاشرے کو ایک قدم اور پستی کی طرف لے جاتا ہے۔
لہٰذا ہمیں ایک اجتماعی خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ ہر شخص کو آئینے میں جھانک کر یہ سوال کرنا ہوگا:
کیا میں اپنی طاقت کا غلط استعمال تو نہیں کر رہا؟ کیا میری زبان یا لہجہ کسی کے زخموں کو مزید گہرا تو نہیں کر رہا؟
کیا میری نظر میں ہر انسان برابر ہے یا میں بھی ’’ کون ہے یہ؟‘‘ کی بنیاد پر برتائو کرتا ہوں؟
یاد رکھیے، ظلم صرف وہ نہیں جو میدانِ جنگ میں ہوتا ہے۔ ظلم وہ بھی ہے جو ہم کسی کے اندر خاموشی بھر کر کرتے ہیں۔
وہ آنسو جو کسی نے آپ کی بات سے چھپ کر بہائے ہوں، وہ بے بسی جو کسی نے آپ کے رویے سے محسوس کی ہو، یہ بھی ظلم ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاشرہ بدلے، تو پہلے ہمیں خود بدلنا ہوگا۔ کیونکہ فرعون کو حضرت موسیٌٰ نے للکارا تھا، مگر اپنے اندر کے فرعون کو صرف ’’ ہم خود‘‘ ہی روک سکتے ہیں۔ اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا۔۔۔ تو وہ دن دور نہیں جب ہم خود اپنے ظلم کے ہاتھوں رسوا ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button