Column

خواجہ آصف نے کہا بیوروکریسی ’’ جو ہے جو ہے‘‘ انتہائی کرپٹ ہے

خواجہ آصف نے کہا بیوروکریسی ’’ جو ہے جو ہے‘‘ انتہائی کرپٹ ہے
تحریر: راجہ شاہد رشید

سیاست نام ہے ادب و شائستگی، علم و دانش و حکمت و حکومت کا۔ سیاست سلسلہ ہے مثبت سوچ و افکار اور سچائی اور سر بلندی کا۔ انسانیت کی بھلائی، شعور کی بیداری اور مساوات و انصاف کے نظام کے نفاذ کا نام ہے سیاست۔ بقول اقبال، جُدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ سیاست نام ہے اعلی علمی و ادبی خالص اسلامی روایات و اقدار کا اور سیاست کام ہے اہل ادب و فکر و فلسفہ، اہل عقل و عمل، مبلغین، دانشوروں، علماء و صوفیاء کا کیونکہ سیاست امن ہے، ایمان ہے، دیانت ہے اور دینیات ہے سیاست۔ جہاد و اجتہاد ہے، عبادت و خدمت اور اخلاص و محبت و اخلاقیات ہے سیاست، لیکن اب تو چنگیزی ہی رہ گئی ہے۔
شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے الفاظ میں:
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو جنگل میں پتھروں سے بھری ہوئی ایک تھیلی ملی جس کی قیمت کا اسے کوئی اندازہ نہ تھا ۔ اس نے ان پتھروں کو دائیں بائیں ندی نالوں میں پھینک دیا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں صرف ایک پتھر ہی رہ گیا تھا۔ جب کسی گوہر شناس نے اسے اس پتھر کی قیمت بتلائی تو وہ رونے لگا کہ میرے پاس اس طرح کے بہت سارے پتھر تھے جنہیں میں نے عدم واقفیت کے باعث ضائع کر دیا، اگر وہ سارے میرے پاس ہوتے تو میں کتنا مالدار ہو جاتا۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد جب میدان محشر میں اپنے ان لمحات کی قیمت کو دیکھے گا تو روئے گا چلائے گا کہ میرے پاس تو اس طرح کے بہت سے لمحات تھے جنہیں میں نے دنیا میں ضائع کر دیا۔ کاش کہ میں ان لمحات کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں گزارتا تو آج میرے پاس نیکیوں کا ایک ذخیرہ جمع ہوتا اور میری بخشش ہو جاتی ہے۔ اس لیے آنکھ بند ہونے سے قبل زندگی کے قیمتی لمحات کی قدر کریں۔ زندگی ہر ہر لمحے موت کے قریب کر رہی ہے۔ اللہ کریم ہمیں دنیا سے اس حالت میں اٹھانا کہ تُو ہم سے راضی ہوچکا ہو۔ آمین۔
ہمیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم سب کل کو اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔ ہمارے اعمال نامے اور کارنامے یہ ہیں کہ پورے ملک میں دودھ دہی بھی خالص نہیں ملتا۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور جھوٹ و بددیانتی میں ہم نے ماسٹر بلکہ پی ایچ ڈی کر رکھا ہے نیچے سے اوپر تک۔ کپتان نے کروڑوں نوکریوں کے وعدے کیے، نئے پاکستان اور تبدیلی تبدیلی کے دعوے بھی بہت کیے مگر بری طرح ناکام ہوئے۔ گوگی، بزدار اور بشریٰ نے بانی کو خراب کر دیا اور بے نقاب بھی کر دیا۔ الغرض سب کے اپنے اپنے پانامے اور توشہ خانے ہیں۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہ اپنے اپنے عہد میں توشہ خانہ سے مستفید ہوتے رہے۔ ہم بانی کی ایک گھڑی کو رو رہے ہیں جبکہ چند دن کے وزیراعظم شاید خاقان عباسی تک توشہ خانہ سے آٹھ گھڑیاں لے اُڑے۔ خبر چھپی ہے کہ کے پی کے میں 202ء اور 2025ء کی رپورٹ میں بے انتہا کرپشن، مشکوک اخراجات ، مالی بے ضابطگیوں اور 189ارب کے غلط لین دین کا انکشاف ہوا ہے، جس نے سرکاری مالیاتی نظام کی شفافیت پر سنگین سوال اٹھا دئیے ہیں۔ کل جب ایک خاتون اینکر پرسن نے سابق وزیراعظم شاید خاقان عباسی سے کہا کہ الیکشن 2024ء میں PTIکے ٹکٹ کروڑوں میں بکتے رہے تو جواباً وہ فرمانے لگے کہ خیبر پختونخوا میں آج بھی لوگ 15کروڑ دے کر وزیر لگ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے تو غریب کی زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ اگست میں ہم یوم آزادی منایا کرتے تھے اور دل دل پاکستان گایا کرتے تھے مگر آپ کی بار تو ہر پاکستانی بِل بِل پاکستان بول رہا ہے۔ جی ہاں یہ چنگیزی ہی تو ہے کہ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک عام انسان پینے کے لیے صاف پانی کو ترستا ہے اور کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی کو روتا ہے۔ تعلیم یہاں بیچی جاتی ہے اور وہ بھی بہت ہی مہنگی، سرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں، سکولوں میں تعلیم نہیں، اولادوں کا کوئی مستقبل نہیں، مہنگائی، غربت بے روزگاری ہے، روزگار نہیں۔ بچے دال روٹی روزگار تلاشنے بیرونی ممالک میں بھاگ رہے ہیں اور ہم یہاں کرپشن کرپشن کھیل رہے ہیں۔ سینئر جرنلسٹ محمد مالک فرماتے ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں دو ہزار ارب سے زائد کی خالص کرپشن ہوئی ہے۔ زاہد گشگوری کی ایک خبر ک مطابق 58ہزار پاکستانیوں کی 58ممالک میں آٹھ ارب ڈالر جائیدادیں ہیں۔ ان میں سیاستدان ، جرنیل اور بیوروکریٹ سب شامل ہیں۔ اور تو اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ایک ٹویٹ میں بتلاتے ہیں کہ ہماری بیوروکریسی ’’ جو ہے جو ہی‘‘ انتہائی کرپٹ ہے، بہت سے بیوروکریٹس نے پرتگال میں زمینیں خریدی ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ میرے پاکستان میں اصل کرپشن کی کریم تو بیوروکریٹ کھا جاتے ہیں جبکہ سیاستدانوں کو تو بس بچا کچھا ہی ملتا ہے ۔ الغرض کوئی اُمید نظر نہیں آتی کوئی روشنی نظر نہیں آتی۔ آخر کب ہوگا ایک ایسی نئی سحر کا طلوع جب سبز امن سویرا ہوگا، ہر سو ہریالی ہوگی اور خوشحالی ہوگی ، آخر کب۔؟ اب آپ ہی یہ بتلائیں کہ ان حالات میں ان جماعتوں سے اور ان حکمرانوں سے کوئی کیا اچھائی کی اُمید رکھے جن کے کالے کرتوتوں سے ایک عام پاکستانی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور ان کی بد زبانیاں، بے ضابطگیاں اور بدعنوانیاں ننگی ناچ رہی ہیں۔
شعیب بن عزیز کے الفاظ میں:
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا

جواب دیں

Back to top button