ملک ریاض کے خلاف نیب ریفرنس کے حقائق

ملک ریاض کے خلاف نیب ریفرنس کے حقائق
تحریر : امتیاز عاصی
آج کل بحریہ ٹائون کے چیف ایگزیکٹو ملک ریاض کے خلاف نیب ریفرنس کا بڑا چرچا ہے۔ ملک ریاض خود بھی سوشل میڈیا پر اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا رونا روتے ہیں۔ بحریہ ٹائون کی جائیداد کی فروخت کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ بحریہ ٹائون پرائیویٹ سیکٹر میں غالبا ملک کی سب سے بڑی ہائوسنگ سوسائٹی ہے، جس میں کئی ہزار ملازم کام کر رہے ہیں۔ بحریہ سوسائٹی صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ لاہور، کراچی دیگر شہروں میں بھی کام کر رہی ہے اور کامیاب ترین ہائوسنگ سوسائٹی سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ ملک ریاض نے بحریہ کے لئے اراضی کے حصول کے لئے بڑے بڑے لوگوں کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے سوسائٹی کے لئے اراضی کا انتظام کیا اور اربوں روپے کمائے۔ بحریہ کے چیف ایگزیکٹو سوشل میڈیا پر اپنی بے گناہی کا واویلا کر رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے ان کے خلاف حکومت سابق وزیراعظم کے خلاف شہادت نہ دینے کی پاداش میں انتقامی کارروائی کر رہی ہے، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ راولپنڈی میں دریائے سواں سے راوت تک موضع تخت پڑی صوبہ پنجاب کا سب سے بڑا موضع تھا۔ اس موضع میں کئی ہزار ایکٹر اراضی پنجاب کے محکمہ جنگلا ت کی ملکیت تھی۔ ایک سال قبل راقم اس بارے روزنامہ جہان پاکستان میں کالم بھی لکھ چکا ہے۔ ملک ریاض نے پنجاب کے محکمہ ریونیو اور مبینہ طور پر وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے علاوہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی جن کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا اور آج کل شائد وہ اسلام آباد میں ایک اہم محکمہ میں فائز ہیں، راولپنڈی کے تحصیل دار اور پٹواریوں کی مبینہ ملی بھگت سے جنگلات کی سرکاری اراضی بحریہ کے نام منتقل کر الی۔ مجھے ان حقائق کا اس وقت علم ہوا جب میں اپنے ایک مرحوم دوست چودھری محمد آصف ایڈوکیٹ کے دفتر بیٹھا تھا کہ اس کیس میں ملوث تمام افراد ان کے ہاں آئے اور اپنی ضمانت کرانے کی درخواست کی۔ چنانچہ ان کے جانے کے بعد چودھری صاحب نے مجھے کیس کی ساری کہانی سنائی۔ جنگلات کی اراضی کا مقدمہ اینٹی کرپشن راولپنڈی میں پہلے ہی درج ہو چکا تھا۔ اس دوران اسلام آباد کے آئی جی پولیس حسین اصغر جو ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھے سابق وزیراعظم عمران خان نے انہیں پنجاب میں اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کر دیا۔ نئے ڈائریکٹر جنرل نے اپنا منصب سنبھالتے ہی زیر التوا مقدمات کی تفتیش فوری طور پر شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جنگلات کی اراضی کا مقدمہ پہلے سے زیر التواء تھا۔ جب ملک ریاض نے بھانپ لیا اینٹی کرپشن والے حسین اصغر کے ہوتے ہوئے نہیں چھوڑیں گے تو انہوں نے اینٹی کرپشن کو از خود درخواست دے دی ان کا مقدمہ نیب میں ٹرانسفر کر دیا جائے۔ چنانچہ ملک ریاض کی اپنی خواہش پر یہ مقدمہ نیب میں منتقل کر دیا گیا۔ دراصل نیب میں بھی ملک ریاض کے خلاف مقدمہ زیر التواء تھا، ملک کی سوسائٹی میں مسلح افواج سے ریٹائر ہونے والے بڑے بڑے افسر کام کر رہے ہیں۔ ملک ریاض کو قوی امید تھی وہ اپنا کیس ٹھیک کرا لیں گے، لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور ملک ریاض دبئی میں تھے جنہیں عمران خان کے خلاف گواہی دینے کے لئے کہا گیا، چنانچہ ان کے انکار سے مقدمہ کھلا کیا سب کچھ کھل کر سامنے آگیا اور بحریہ کے مالک کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر ہو گیا۔ موضع تخت پڑی کی جنگلات کی یہ اراضی اربوں نہیں کئی کھرب کی ملکیتی ہے جس پر بحریہ کا فیز آٹھ بن چکا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے ملک ریاض نے بعض ٹی وی اینکرز، کالم نگاروں اور دیگر صحافیوں کو بحریہ میں پلاٹ اور کئی مراعات سے نواز ا ہے لیکن یہ سب کچھ جنگلات کی اراضی اور دیگر لوگوں سے اراضی لینے کے معاملات پر پردہ ڈالنے کی کوشش تھی، جس پر برسوں پردہ پڑا رہا۔ سوال ہے کئی سال گزرنے کے بعد ملک صاحب کو مذکورہ صحافیوں کو پلاٹ اور نقد رقوم دینے کے پرچار کا خیال کیوں آیا۔ ملک ریاض جن جن اخبارات کو کروڑوں کے اشتہارات دیتے تھے اس کی خبر شائع کرنے سے گریزاں ہیں، جس کی بنا وہ اپنا دفاع سوشل میڈیا پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے نیب کا مقدمہ مضبوط ہے جس میں کسی ایک کی بریت کا کوئی امکان نہیں۔ میرے خیال میں سب کے سب سزا یاب ہو جائیں گے۔ مجھے نہیں معلوم وزیراعلیٰ کو جنگلات کی کئی ہزار ایکٹر اراضی کسی نجی ہائوسنگ سوسائٹی کے نام منتقل کرنے کا اختیار حاصل تھا یا نہیں اس بارے قانونی ماہرین بہتر بنا سکتے ہیں، البتہ یہ مسلمہ حقیقت ہے جنگلات کی ہزاروں ایکٹر اراضی اربوں کی ملکیتی تھی، جسے ہائوسنگ سوسائٹی میں بدل کر کھربوں روپے کمائے گئے۔ بحریہ کے چیف ایگزیکٹو نے فیز سات میں کئی ایک دیہات کی اراضی حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہاں کے مکین ہائیکورٹ چلے گئے، جس نے وہاں کے مکینوں کے حق میں فیصلہ دے دیا، وہ دیہات اب بھی موجود ہیں۔ قرآن پاک میں حق تعالیٰ کا فرمان ہے اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ ہمیں روزمرہ زندگی میں کوئی کام کرنے سے قبل اللہ سبحانہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی پکڑ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے معاملات کو چلانا چاہیے۔ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ ہو جاتی ہے جس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ ہمیں ملک ریاض سے کوئی پرخاش نہیں، یہ ناچیز انہیں اس وقت سے جانتا ہے جب وہ میرے گھر سے چند سو میٹر کی مسافت پر رہتے تھے۔ جیسا کہ اخبارات میں آیا ہے ملک ریاض نے بحریہ کو بند کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے، لیکن سوال ہے بحریہ کو بند کرنے سے معاملات حل نہیں ہو سکتے، بلکہ انہیں اپنے خلاف ریفرنس کو فیس کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کو انہوں نے پلاٹ اور مراعات دیں، آج ان کے کوئی کام نہیں آسکا ہے، بلکہ سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ وقت ایک سا نہیں رہتا، انسان کو روزمرہ زندگی میں کوئی کام کرنے سے قبل حق تعالیٰ کا خوف ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ مال و دولت سب عارضی ہیں، ہمیں سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے وہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی ہمت اور توفیق دے (آمین)۔







