Aqeel Anjam AwanColumn

نوجوان ’’ ملک‘‘ کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟؟

نوجوان ’’ ملک‘‘ کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟؟
تحریر : عقیل انجم اعوان
چند دن پہلے میں اپنے بیٹے کا پاسپورٹ بنوانے کے لیے لاہور کے فیصل ٹائون میں واقع نادرا میگا سینٹر گیا۔ وہاں بہت زیادہ رش تھا۔ لوگوں کی لمبی قطاریں، ہجوم، شور شرابہ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کو بہت جلدی ہو۔ کئی گھنٹے انتظار کے باوجود باری نہ آئی تو وہاں سے نکل کر پاسپورٹ آفس گارڈن ٹاؤن چلا گیا۔ وہاں بھی یہی حال تھا بلکہ رش اور زیادہ تھا۔ یہ سب لوگ پاسپورٹ بنوانے آئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر نوجوان تھے۔ ان کی عمریں 20سے 30سال کے درمیان تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شاید کوئی نوکری یا اسکالر شپ پروگرام کھلا ہے لیکن تھوڑا غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ نوجوان صرف ایک ہی مقصد کے لیے وہاں موجود تھے وہ تھا باہر جانے کے لیے۔ ایک نوجوان سے بات کی تو اس نے بتایا کہ وہ دبئی جانا چاہتا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، پاکستان میں کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت ٹیکس لگا دیتی ہے اور جو نوجوان آئی ٹی یا فری لانسنگ جیسے کام کرتے ہیں ان کو پولیس اور سائبر کرائم ونگ تنگ کرتا ہے۔ چھاپے مار کر سامان اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں پیسے دے کر واپس لینا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم باہر جا رہے ہیں تاکہ سکون سے کام کر سکیں۔ یہ ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہ پاکستان میں بسنے والے ہزاروں نوجوانوں کی آواز ہے۔ آج کے نوجوان محنتی ہیں، پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں، لیکن انہیں یہاں ایسا ماحول نہیں ملتا جس میں وہ بغیر خوف کے اپنا کام کر سکیں۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں جو نوجوان کاروبار کر رہے ہیں خاص طور پر آن لائن کاروبار یا فری لانسنگ، انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں پولیس یا سائبر کرائم ونگ نے بغیر کسی قانونی نوٹس کے دفاتر پر چھاپے مارے، قیمتی سامان اٹھایا اور بعد میں پیسوں کے بدلے واپس کیا۔ ان کے خلاف جعلی مقدمات درج کیے گئے یا انہیں رشوت دے کر معاملات طے کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں نوجوانوں کا ملک سے بددل ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ جب ریاست انہیں تحفظ نہ دے، جب نظام ان کے لیے مشکلات پیدا کرے اور جب کام کرنے والے ہاتھوں کو مجرموں کی طرح پیش کیا جائے تو وہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آج بڑی تعداد میں پاکستانی نوجوان خاص طور پر دبئی، قطر، سعودی عرب، کینیڈا اور یورپ جا رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف سال 2024میں قریباً آٹھ لاکھ پاکستانی نوجوان ملک سے باہر گئے۔ ابھی 2025 کا ڈیٹا آنا باقی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو پاکستان میں کام کرنا چاہتے تھے لیکن ناکافی سہولتوں، غیر یقینی حالات اور سرکاری اداروں کی سختی کی وجہ سے مجبوراً ہجرت کر گئے۔ خاص طور پر آئی ٹی اور فری لانسنگ جیسے شعبے میں نوجوانوں نے کافی ترقی کی ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جو نہ صرف نوجوانوں کو روزگار دیتے ہیں بلکہ ملک کے لیے زرمبادلہ بھی کما کر لاتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے لیے رکاوٹ بن چکے ہیں۔ ایک مثال سے بات واضح ہوتی ہے۔ فرض کریں ایک نوجوان نے لاہور یا اسلام آباد میں ایک چھوٹا سا کال سینٹر کھولا ہے۔ وہ بین الاقوامی کلائنٹس کے ساتھ کام کر رہا ہے اور ملک کے لیے ڈالر لا رہا ہے۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں اسے پولیس یا کسی اور ادارے کا چھاپہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کا سارا سامان اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اسے واپس لینے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ اس نوجوان کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوتی ہے بلکہ وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر یہی سب کچھ بار بار ہوگا تو بہتر ہے کہ کسی ایسے ملک چلا جائے جہاں قانون ہے، نظام ہے اور کاروبار کرنے کے لیے سہولت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں رہنے والے نوجوان اب دبئی یا دیگر خلیجی ریاستوں کا رخ کر رہے ہیں۔ وہاں انہیں سیکیورٹی بھی ہے، کاروبار کرنے کی آزادی بھی اور ریاستی اداروں کی بلاوجہ مداخلت بھی نہیں ہوتی۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ محنت کریں گے تو ان کی کمائی اور کاروبار محفوظ ہوں گے۔ یہ رجحان ملک کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو پاکستان کا ہنر مند اور تعلیم یافتہ طبقہ ملک چھوڑتا جائے گا۔ اور یہ صرف افراد کا نقصان نہیں بلکہ ریاست کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔ تعلیم، صحت، آئی ٹی، کاروبار اور دیگر شعبوں میں نوجوانوں کی شرکت کم ہوتی جائے گی۔ ملک ترقی کرنے کے بجائے پیچھے رہ جائے گا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ نوجوانوں کو پاکستان میں رہ کر کاروبار کرنے کے لیے ایک محفوظ اور سہل ماحول دیا جائے۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ آئی ٹی اور دیگر آن لائن کاروبار کو قانونی طور پر تسلیم کیا جائے۔ ان کے لیے ایک آسان رجسٹریشن کا نظام بنایا جائے۔ ٹیکس کے قوانین سادہ ہوں اور چھوٹے کاروباروں پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اس کی ساتھ ساتھ پولیس اور دیگر اداروں کے کردار پر بھی نظرثانی ہونی چاہیے۔ بلاوجہ چھاپے مارنے یا رشوت لینے کی روایات ختم کی جائیں۔ جو ادارے نوجوانوں کو تحفظ دینے کے بجائے انہیں ہراساں کرتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ نوجوانوں کو صرف ٹیکس دینے والے شہری کے طور پر نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کے معمار کے طور پر دیکھا جائے۔ حکومت اگر سنجیدہ ہے تو وہ اسٹارٹ اپس کے لیے مالی معاونت، ٹریننگ پروگرامز اور سوشل سکیورٹی اسکیمیں متعارف کروا سکتی ہے۔ اس سے نوجوانوں کا ریاست پر اعتماد بڑھے گا اور وہ ملک چھوڑنے کے بجائے یہاں رہ کر کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کا نوجوان صرف نوکری نہیں چاہتا وہ خودمختاری چاہتا ہے۔ وہ اپنا کاروبار کرنا چاہتا ہے، اپنی پہچان بنانا چاہتا ہے اور کسی کے سہارے کے بغیر جینا چاہتا ہے۔ اگر ہم اسے ایسا ماحول دیں جس میں وہ محفوظ اور باعزت طریقے سے کام کر سکے تو وہ کیوں ملک چھوڑے گا؟ آخر میں یہ بات سب کو سوچنی ہوگی کہ اگر آج کے نوجوان پاکستان چھوڑ گئے تو کل اس ملک کو کون سنبھالے گا؟ اگر ہم نے تعلیم یافتہ اور محنتی طبقے کو اپنی پالیسیوں سے بدظن کر دیا تو پھر ملک میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جو بے بس ہیں یا جن کے پاس باہر جانے کی سہولت نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے اصلاحات کی طرف جائیں۔ نوجوانوں کو سہولت دیں، تحفظ دیں، اعتماد دیں تاکہ وہ پاکستان میں رہ کر پاکستان کے لیے کام کریں نہ کہ کسی دوسرے ملک کے لیے۔

جواب دیں

Back to top button