قرض حسنہ
قرض حسنہ
شہر خواب۔۔۔
صفدر علی حیدری
عہد جدید نے جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کو گلا گھونٹا ہے، قرص حسنہ ان میں ایک ہے۔ کسی اپنے کی پیسوں سے اس طرح مدد کرنا کہ بدلے میں کچھ نہ چاہنا اور اتنی ہی رقم واپس لینا جتنی دی تھی۔ آج کل کی نسل کو یہ بات شاید آسانی سے ہضم نہ ہو لیکن ۔۔ یہ ایک سچ ہے۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب صاحب ثروت، صاحب استطاعت لوگ مجبور و بے بس لوگوں کے لیے اپنے دل بانہیں اور تجوری کے دروازے کھول دیا کرتے تھے۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے۔ جب امیر اور غریب ایک ساتھ ایک ہی محلے میں رہا کرتے تھے۔ جب لوگ اسٹیٹس کانشس نہیں ہوا کرتے تھے۔ تب داری کا دور کا۔ رشتہ داری، تعلق داری، ہمسائے داری اور پردہ داری کو فوقیت ملتی تھی۔ مجبوروں، بے کسوں، ناداروں کا بھرم قائم تھا۔ تب محلے کے بزرگوں سے بھی ڈرا جاتا تھا۔ ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ تب کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ ’’ آپ سے مطلب ۔۔۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں ۔۔۔ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے ‘‘۔ تب بڑوں کے آگے بولنا، آواز بلند کرنا اور اختلاف کرنا سوئے ادب سمجھا جاتا تھا۔ بڑا بڑا ہوتا تھا خواہ اس سے خون کا رشتہ نہ بھی ہوتا۔ تب رشتے دل سے بنتے، احساس سے جڑتے اور قربانی سے پنپتے تھے۔
ہاں صاحب! ایسا ہوا کرتا تھا اور یہ کوئی زمانہ قبل از مسیح کی بات بالکل بھی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ابھی زندہ ہیں جو اس عہد زریں کے عینی شاہد ہیں۔ یہ اعتبار کا وقت تھا۔ بھروسے کا دور تھا۔ مروت اور لحاظ ابھی انسانوں میں باقی تھا۔ دکھاوے کی نیکی نے ابھی رواج نہیں پکڑا تھا۔ سچ ہے ماضی سب کو سنہرا لگتا ہے۔ اور یونہی نہیں لگتا۔ وہ وقت تھا ہی ایسا۔ کیسے جی دار لوگ تھے جوہڑ کا پانی پی کر اسی، اسی سال جیتے تھے ( آج کل تو محفوظ پانی پیتے ہیں اور چالیس بھی کراس نہیں کر پاتے ) کیا اچھا وقت تھا، کیا اچھے لوگ تھے کہ کسی بے بس، لاچار، نادار کی مشکل دیکھتے تھے تو ان پر رقت طاری ہو جاتی تھی، دل پسیج جاتا تھا، آنکھ بھر آتی تھی اور جیب کھل جاتی تھی۔ اس کی ضرورت کے مطابق رقم دے کر کہہ دیا کرتے تھے ’’ فکر کی کوئی بات نہیں، جب پیسے تب لوٹا دینا۔ پیسے کم پڑ جائیں تو بتاتے ہوئے نہ شرمانا ‘‘ اور پھر ایسا بھی ہوتا کہ اگر قرض دار قرض لوٹانے میں ناکام رہتا تو کئی سخی دل لوگ قرض معاف بھی کر دیا کرتے تھے۔
کتاب ہدایت کو کھول کر دیکھتے ہیں تو اس میں قرض حسنہ کے حوالے سے بخوبی رہنمائی ملتی ہے۔
’’ کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ دے؟ اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ‘‘۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ’’ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اس کے لیے اسے کئی گنا کر دے؟ اور اس کے لیے پسندیدہ اجر ہے ‘‘ نیز ’’ اے ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خرید و فروخت ہے اور نہ کافروں کے لئے دوستی اور نہ شفاعت، اور کافر خود ہی ظالم ہیں ‘‘ اور ’’ یقینا صدقہ دینے والے مردوں اور صدقہ دینے والی عورتوں نیز ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ہے کئی گنا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجر ہے ‘‘ اور ’’ اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو گے تو وہ تمہارے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدر شناس، بردبار ہے ‘‘ اور’’ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں بہتر اور ثواب میں عظیم تر پائو گے اور اللہ سے مغفرت طلب کرو، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، رحیم ہے ‘‘۔
ایک بے نیاز ہستی محتاج بندوں سے قرض مانگ رہی ہے اور وہ بھی اس مال سے جو خود اس نے عطا فرمایا ہے تاکہ بندوں کو یہ آواز بھلی لگے، یہ ندا پرکشش لگے، وہ اس دعوت میں لذت محسوس کریں اور اس پر لبیک کہنے میں فخر و مباہات کریں۔ اس خطاب کی شیرینی کے بعد قرض حسنہ دینے کی راہ میں آنے والی ساری تلخیاں بھی شیریں ہو جاتی ہیں ۔ پھر قرض حسنہ لینے والا یعنی اللہ، مالک حقیقی ہونے کے باوجود کئی گنا زیادہ دینے کا مشفقانہ وعدہ فرماتا ہے۔
سبحان الکریم الجواد کس قدر منافع بخش ہے یہ سودا۔ کئی گنا زیادہ دینے کا وعدہ اس خدا کی طرف سے ہے جو قابض ہے ، یعنی گھٹانے والا اور باسط ہے، یعنی بڑھانے والا اور مرجع کل بھی ہے کہ آخر میں پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔کسی کو واپسی کی ضمانت کے ساتھ کچھ مال دینے کو قرض کہتے ہیں۔
مالک حقیقی اس سے قرض مانگ رہا ہے جس کے پاس اس کی امانت ہے اور اس کا فضل و کرم ہے کہ اسے کئی گنا کر کے واپس کرے گا اور ساتھ ہی اجر کریم بھی عنایت کرے گا۔
آیات و احادیث کی روشنی میں انفاق میں دس اوصاف ہوں تو وہ قرض حسنہ بنتا ہے: مال حلال ہو ۔ عمدہ مال ہو، ردی مال نہ ہو۔ زندگی کے آخری لمحات میں نہ ہو۔ مستحق ترین کو دے، اس انفاق کو راز میں رکھے۔ دینے کے بعد نہ جتلائے۔ برائے خوشنودی خدا ہو، ریاکاری نہ ہو۔ مال زیادہ دیا جا رہا ہو تو بھی اسے تھوڑا سمجھے ۔ اپنا پسندیدہ مال ہو ۔ اس مال کی خود کو بھی ضرورت ہو۔ یعنی وہ اس مال کا محتاج بھی ہو۔
ارشاد ہوتا ہے ’’ اللہ تمہارے انفاق کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ وہ قدرداں، حلیم ہے۔ اپنے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر عذاب نازل کرنے میں عجلت سے کام نہیں لیتا‘‘۔
قرض حسنہ ہو یا کسی کے پاس امانت رکھنا، اس کا براہ راست تعلق اعتبار سے ہے، بھروسے سے ہے۔ تو معلوم پڑا کہ جب سے لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتبار جاتا رہا ہے، قرض حسنہ دینے اور امانت رکھنے کی عظیم صفات اٹھا لی گئی ہیں ۔
عہد جدید میں قرض حسنہ کی تعریف یوں کی جانے لگی ہے ’’ ایسا قرض کہ جب قرض خواہ قرض کی واپسی کا مطالبہ کرے تو جوابا قرض دار ہنسنا شروع کر دے ‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سود اور سودی لین دین عام ہو گیا ہے۔ حکومت ہو یا بینک، مالیاتی ادارے ہوں یا صاحب ثروت افراد، سود کی لعنت کا شکار ہیں۔ اب کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا۔ کسی کو کسی رشتہ دار، تعلق دار اور ہمسائے پر ترس نہیں آتا۔ بھائی بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں۔ شاید اسی لیے برکت اٹھ گئی ہے، مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ تعلق کمزور پڑ چکے ہیں۔
دعا ہے کہ انسان اس کیفیت سے نکل آئے۔ اسی میں اس کی بلکہ سب کی بھلائی ہے۔
اب آخر میں ایک افسانچہ پیش خدمت ہے۔
آوٹنگ
صفدر علی حیدری
افسانچہ۔۔۔۔
سردی لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے چاروں طرف سے مری کی سردی نے اس کے وجود کو پتھرانا شروع کر دیا ہو
کاش وہ مری آوٹنگ کے لیے نہ آیا ہوتا ۔۔۔
’’ بھائی جان میرے مالی حالات تو آپ کے سامنے ہیں۔ آپ کی بھتیجی کی شادی ہے۔۔۔ براہ کرم مجھے پچاس ہزار روپے ادھار دیں۔۔۔ مجھے آفس سے لون کے پیسے ملیں گے تو آپ کو لوٹا دوں گا‘‘۔۔۔
’’ پیسے درختوں پر نہیں اگتے کہ تمہیں توڑ کر دے دوں۔۔۔ کرونا نے کاروباری طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔۔۔ میرے پاس بالکل بھی گنجائش نہیں ہے، ورنہ پیسے بھائی، بھتیجی سے پیارے نہیں ہوتے‘‘۔۔۔۔
اس کے تاریک ہوتے ذہن میں یہ مکالمہ گونجا تو اس کے آنسو بہہ نکلے۔۔۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔
صبح کار کاٹ کر جب اس کی لاش نکالی گئی تو پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈی اس کے کوٹ کی جیب سے جھانک رہی تھی۔۔۔





