شوگر ایک مہلک اور دائمی مرض ہے

شوگر ایک مہلک اور دائمی مرض ہے
صدا بصحرا
رفیع صحرائی
شوگر کے مرض کو Silent Killerیعنی خاموش قاتل کہا جاتا ہے۔ اس مرض سے بروقت آگاہی سے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی لاعلمی میں اس کا وار زیادہ شدید اور خطرناک ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں قریباً اکتالیس کروڑ افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں جبکہ ایک تحقیق کے مطابق جاں بحق ہونے والا ہر پانچواں فرد ذیابیطس کا شکار ہوتا ہے۔ شوگر کی بیماری سے ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہو رہی ہے اور شوگر کی وجہ سے ہونے والی ان اموات کا تعلق غریب اور درمیانی طبقہ سے ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں شوگر کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں قریباً دو کروڑ افراد شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ذیابیطس کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر ہے۔
ذیابیطس ایک مہلک اور دائمی مرض ہے جس میں انسانی جسم میں لبلبہ انسولین کا اہم ہارمون نہیں بنا پاتا ہے جس کی وجہ سے جسم میں گلوکوز ( شکر) کی مقدار کنٹرول نہیں ہو پاتی۔ گلوکوز انسانی خلیوں کے لیے توانائی کا اہم ذریعہ ہے، اس کا خون میں کم یا زیادہ ہونا دونوں ہی صورتوں میں صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ شوگر کے مرض کی علامات میں پیشاب زیادہ آنا، بھوک زیادہ لگنا، پیاس زیادہ لگنا، تھکاوٹ محسوس کرنا، وزن کم ہونا، نظر کا دھندلا ہونا، زخموں کا نہ بھرنا اور پسینہ زیادہ آنا شامل ہیں۔ شوگر کی وجہ سے پائوں میں بہت زیادہ جلن ہونا، پائوں کی شکل میں تبدیلی ہو جانا، یا پھر پائوں اتنے سُن ہو جانا کہ جوتا اترنے کا احساس بھی نہ ہو، خطرناک علامات ہیں۔
ذیابیطس کا مرض دائمی ہے۔ اس کے مریضوں کو انسولین کو کنٹرول کرنے کے لیے اکثر زندگی بھر گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ زیادہ شدید کیسوں میں انسولین کے انجکشن لگانے پڑتے ہیں۔ یہ مرض وقت کے ساتھ ساتھ آنکھوں، پٹھوں، اعصاب، گردے، ہاتھوں اور پیروں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بعض مریضوں کو ہاتھوں یا پائوں کی انگلیوں میں کینگرین بھی ہو جاتا ہے جس سے کبھی کبھی انہیں کاٹ دینا پڑتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کولڈ ڈرنکس اور چائے میں چینی کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان شوگر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ فاسٹ فوڈ کا استعمال بھی شوگر کا مرض پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف سفید چینی کا زیادہ استعمال ہی شوگر کا مرض پیدا کرتا ہے۔ یاد رکھیے! میٹھا چاہے گڑ کی شکل میں ہو، دیسی شکر کی شکل میں ہو یا شہد کی شکل میں، یہ سبھی شوگر پیدا کرتے ہیں۔
جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے ( کاربوہائیڈریٹس) کو شکر ( گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے۔ جس کے بعد لبلبے ( پینکریاز) میں پیدا ہونے والا ہارمون ( انسولین) ہماری جسم کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔ ذیابیطس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی یا کام نہیں کرتی۔ اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں تاہم عمومی طور پر اسے دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ٹائپ ون میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہائو میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ سائنسدان ابھی تک یہ تو نہیں جان پائے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے تاہم ان کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد ٹائپ ون کا شکار ہیں۔ ٹائپ ٹو کا شکار عام طور پر چالیس سال سے زائد عمر کے افراد ہوتے ہیں۔ تاہم اب کھانے پینے میں بے اعتدالیوں کے سبب یہ چالیس سال سے کم عمر افراد بھی اس کے نرغے میں آ رہے ہیں۔ ٹائپ ٹو میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔
ذیابیطس تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ چالیس سالوں میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف پاکستان میں ہر سال اس مرض کی وجہ سے ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر 11واں بالغ فرد ذیابیطس سے متاثر ہے جبکہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص ذیابیطس میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ شوگر ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق 15سے 20کلوگرام وزن کم کرنے سے 50فیصد ذیابیطس کے مریض اس بیماری سے چھٹکا حاصل کر سکتے ہیں۔ جسم کا صحت مند حد تک وزن شوگر لیول کو کم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو اسے آہستہ آہستہ کم کریں یعنی آدھا سے ایک کلو تک ہفتے میں کم کریں۔ شوگر کے مریض روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی لا کر صورتِ حال میں بہتری لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے اہم کام پیدل چلنا( واک) ہے۔ بیس سے پچیس منٹ روزانہ یعنی ہفتے میں مجموعی طور پر ڈھائی گھنٹے ورزش کریں۔ صحت مند خوراک کا رجحان اپنائیں۔ پروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز اور سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال کریں۔ ریفائنڈ چینی اور اناج غذایت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سفید آٹا، بیکری کی اشیا ئ، سفید پاستا،سوڈا والے مشروبات، مٹھائیاں اور ناشتے کے میٹھے سیریل غذائی اعتبار سے بہت کم کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ صحت مند غذائوں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج شامل ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔





