ColumnTajamul Hussain Hashmi

آزادی کی سالگرہ مبارک

آزادی کی سالگرہ مبارک
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
ٹھیک 7دن بعد قوم کو 78ویں آزادی مبارک۔ 78سالوں بعد بھی پاکستان دنیا کے پہلے سو امیر ترین ممالک میں شامل نہیں ہے لیکن عسکری لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے۔ اس بار شہباز شریف حکومت کے دعوے بڑے ہیں اگرچہ کل قومی پیداوار کے حوالے سے دنیا کی 26ویں معیشت ہے، لیکن قوم کی خوشحالی کے حوالے کوئی اچھا نمبر نہیں ہے۔ پاکستان کی معاشی تنزلی کی تاریخ کے حوالے سے اپنے بڑوں سے سننے کو ملتا ہے کہ جب ہمیں آزادی ملی تو کام کرنے کے لیے ٹبیل تک نہیں تھے۔ سارا کام زمین پر بیٹھ کر کیا جاتا رہا۔ ان 78برسوں میں ہم ایٹمی طاقت تو ہیں اور دنیا کی12ویں جنگی قوت کے حامل ہیں۔ اس میں کتنی صداقت ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غریب ملک کے طور پر وجود میں آیا ؟ سوال بڑا اہم ہے کہ پاکستان نے جب آزادی لی تو اس وقت ہماری معاشی و دفاعی قوت کیا تھی اور ہماری ریاست کے پاس کتنا پیسہ تھا؟ کونسل کے فیصلہ کے مطابق کتنا حصہ پاکستان کو ملا۔ تقسیم ہند کا منصوبہ 3جون کو پیش ہوا تو 12جون کو لارڈ مائونٹ بیٹن کی سربراہی میں ایک پارٹیشن کونسل قائم کر دی گئی۔ جس کی ذمہ داری میں دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کا فارمولا طے کرنا تھا۔ اس کونسل نے رضامندی سے دونوں ممالک کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کا فارمولا طے کیا، جس میں آبادی کو بنیادی سکیل بنایا گیا تھا۔ اس حساب سے پاکستان کے حصے میں 17.5فیصد کے حساب سے پیسہ آیا بلکہ ہندوستان کے ذمے جتنے بھی قرض واجب الادا تھے اس میں سے بھی پاکستان کو اسی تناسب کے حساب سے واپسی کرنی تھی۔ برطانیہ نے دونوں ممالک کو 400کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا، اس میں سے پاکستان کے حصے میں 75کروڑ روپے رکھے گئے۔
20کروڑ روپے پاکستان کو 15اگست 1947ء کو ہی ادا کر دئیے گئے، جبکہ باقی پیسوں کی ادائیگی کا معاملہ اتنا الجھا کہ جمہوری لیڈر گاندھی نے بھوک ہڑتال کر دی۔ گاندھی کی وجہ سے بھارتی حکومت نے مجبور ہو کر 15جنوری 1948ء کو رقم پاکستان کو دینے پر آمادگی ظاہر کی، جس کے 15دن بعد گاندھی کو انتہا پسند ہندو نے قتل کر دیا۔ پاکستان کو ملنے والی رقم اس وقت کے حساب سے کتنی ہو گی ؟ 1947ء میں ایک ڈالر تقریباً تین روپے کے برابر تھا اور اس وقت کا ایک ڈالر آج کے 14ڈالر کے برابر کی مالی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے حصے میں 75کروڑ روپے آئے تھے جو تقریباً 25کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔ ان 25کروڑ ڈالروں کا تقابل آج کے ڈالر کی ویلیو سے کریں تو یہ تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کے برابر رقم بنتی ہے۔ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادی تقریباً 4کروڑ بنتی تھی۔ اس حساب سے 25 کروڑ ڈالر کی رقم اتنی معمولی بھی نہیں تھی لیکن پاکستان کا حقیقی مسئلہ ایک طرف نقل مکانی کرنے والوں کا دبائو تھا اس سے بھی بڑا مسئلہ بینکاری کے نظام کا نہ ہونا بھی تھا کیونکہ یکم جولائی 1948ء سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا کی ہی عمل داری تھی۔ انڈیا اور پاکستان کی ایک ہی کرنسی چل رہی تھی۔ تقسیم کے وقت 99بینک کام کر رہے تھے، جن میں سے سوائے ایک بینک کے تمام بینکوں کے مرکزی دفاتر انڈیا میں ہی تھے۔ بینکنگ سیکٹر پر ہندوئوں کی مکمل اجارہ داری تھی۔ ان بینکوں کی متحدہ ہندوستان میں 3496برانچیں تھیں، جن میں سے پاکستان میں صرف 631 موجود تھیں۔ اس لیے پاکستان کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ آزادانہ طور پر معاشی نظام چلانا تھ ۔ پاکستان غریب ملک کے طور پر وجود میں نہیں آیا تھا لیکن نیا ملک، نیا نظام اور نقل مکانی کرنے والوں کی آبادکاری کا دبائو اتنا زیادہ تھا کہ اس وقت کی انتظامی مشینری کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہم تقسیم کے وقت کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو نامساعد معاشی حالات درپیش نظر آتے ہیں اور ابھی بھی درپیش ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے 2014ء کی رپورٹ میں لکھا کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے کچھ مخصوص اثاثے پاکستان کو ابھی تک منتقل نہیں کیے جو تقسیم کے وقت اس نے پاکستان کو دینے تھے۔ ان کی حالیہ مالیت تقریبا 5ارب 60کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے، جن میں سونے کے سکے، سٹرلنگ سیکورٹیز، انڈین حکومت کے سکے جو اس وقت ریزرو بینک آف انڈیا نے پاکستان کو منتقل کرنے تھے۔
ہندوستان سے الگ ہونے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے قیام کو حقیقی طور پر تسلیم نہیں کیا، پاکستان کی سلامتی، معاشی صورتحال کیلئے دنیا بھر مخالف گروپنگ کرتا رہا ہے، کئی مرتبہ پاکستان پر دہشتگردی اور جنگی حملوں کا مرتکب رہا ہے، پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ کا بھی ذمہ دار ہے۔ دہشتگردی ایسا نا سور ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے بری رکاوٹ ہے، انڈیا کی پاکستان مخالف دہشتگردی کے ثبوت دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔
آج پاکستانی قوم اپنی آزادی جوش و جذبے سے منا رہی ہے لیکن انڈیا کا منہ کالا ہے۔
پاکستان زندہ باد ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button