ColumnQadir Khan

ایران سے افغان مہاجرین کی واپسی

ایران سے افغان مہاجرین کی واپسی
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جب سرحدیں بند ہوتی ہیں، جب سیاست اور جنگ کے ہاتھوں انسانیت پسپا ہوتی ہے، تو وہ کہانیاں جو دل کو چھو جاتی ہیں، وہ داستانیں جو آنکھوں کو نم کر دیتی ہیں، وہ محض اعداد و شمار کے ڈھیر میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ آج ہم ایک ایسی ہی داستان کی بات کریں گے، جو ایران سے واپس آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کی ہے۔ یہ کہانی نہ صرف اعداد کی ہے، بلکہ ان دل ہلا دینے والے لمحات کی ہے، جہاں انسان اپنی شناخت، اپنا گھر، اور اپنی امید کھو بیٹھتا ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسی قوم کی، جو برسوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، اور اب ایک نئی آزمائش کے سامنے کھڑی ہے۔
ایران سے واپس آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد اب لاکھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی کے رابطہ کے مطابق، 26جولائی 2025ء تک تقریباً بارہ لاکھ اسی ہزار افراد واپس بھیجے جا چکے ہیں، اور جولائی کے آخر تک روزانہ گیارہ ہزار کی آمد کے رجحان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تعداد اب شاید تیرہ لاکھ نوے ہزار تک جا پہنچی ہو۔ یہ اعداد و شمار محض کاغذ پر لکھے ہوئے نہیں، یہ ہر ایک فرد کی کہانی ہیں، جو اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ایک نامعلوم مستقبل کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ان میں خواتین ہیں، بچے ہیں، بوڑھے ہیں، اور وہ جوان ہیں جنہوں نے برسوں ایران میں اپنی زندگی کے خواب بنے تھے، جو اب چکنا چور ہو رہے ہیں۔ یہ واپسی کوئی منظم یا رضاکارانہ عمل نہیں۔ یہ ایران کی جانب سے سخت گیر پالیسیوں اور حالیہ بارہ روزہ جنگ کے تناظر میں شدت اختیار کر گئی۔ یہ جنگ، جس نے خطے کے سیاسی منظر نامے کو ہلا کر رکھ دیا، نے افغان مہاجرین کو ایک نئی مصیبت میں دھکیل دیا۔ معتبر ذرائع بتاتے ہیں کہ جنگ کے بعد روزانہ واپسی کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھ کر تیس ہزار تک جا پہنچی۔ یہ ایک ایسی ہجرت ہے جو نہ صرف جسمانی طور پر تکلیف دہ ہے بلکہ جذباتی طور پر بھی انسان کو توڑ دیتی ہے۔
تصور کریں، ایک خاندان جو برسوں سے ایران میں اپنی زندگی بسا چکا تھا، رات کے اندھیرے میں اچانک گھر سے اٹھایا جاتا ہے۔ ان کے پاس نہ اپنا سامان اٹھانے کا وقت ہوتا ہے، نہ اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے کا۔ بسوں میں بھر کر، شدید گرمی میں، یہ لوگ سرحد کی طرف دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ یہ وہ مناظر ہیں جو دل کو دہلا دیتے ہیں۔ ایک معتبر رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح خواتین اور بچوں کو، حتیٰ کہ بغیر مرد سرپرست کے خواتین کو، نیمروز کے راستے زبردستی واپس بھیجا گیا۔ ان میں سے کئی خواتین کی کہانیاں ایسی ہیں کہ سن کر رونا آتا ہے۔ ایک خاتون، جن کا نام رازداری کی وجہ سے ظاہر نہیں کیا گیا، نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ رات کے وقت اٹھائی گئیں، اور انہیں سرحد پر چھوڑ دیا گیا، جہاں ان کے پاس نہ کھانا تھا، نہ پانی، اور نہ ہی کوئی امید۔
ان مہاجرین کے لیے سرحدیں صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک ایسی لکیر ہیں جو ان کی زندگیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہیں۔ ایک طرف وہ ایران ہے، جہاں وہ برسوں سے رہ رہے تھے، جہاں ان کے بچوں نے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے محنت مزدوری سے اپنا روزگار بنایا۔ اور دوسری طرف ایک افغانستان، جہاں افغان عبوری حکومت ہے، جہاں بنیادی سہولیات کی کمی ہے، جہاں خواتین کے لیے زندگی جہد مسلسل ہے۔ یہ سرحدیں، یہ راستے، جیسے کہ ہرات کے قریب اسلام قلعہ اور نیمروز کا میلاک کراسنگ، محض جغرافیائی مقامات نہیں، یہ وہ نقطے ہیں جہاں انسانی خواب ٹوٹتے ہیں، جہاں امیدوں کا جنازہ نکلتا ہے۔
سرحد پر پہنچنے والوں کی مدد کے لیے کئی بین الاقوامی تنظیمیں موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین اور بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت ان لوگوں کو فوری امداد فراہم کرتی ہیں۔ خوراک، طبی سہولیات، اور نقد گرانٹس ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کوشش ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے سرحد پر موجود رہ کر واپس آنے والوں کو ان کے خاندانوں سے رابطہ کرنے میں مدد دی۔ لیکن یہ امداد ایک سمندر میں قطرے کی مانند ہے۔ جون 2025ء میں ایک تنظیم نے خبردار کیا کہ فنڈنگ کی شدید کمی کی وجہ سے یہ امدادی کام متاثر ہو رہے ہیں۔ جب فنڈز ختم ہوتے ہیں، تو امداد بھی ختم ہو جاتی ہے، اور پھر یہ لوگ اپنی تقدیر کے رحم و کرم پر چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔
ایران کی جانب سے یہ زبردستی جلاوطنی کیوں؟ اس کا جواب سیاسی اور سماجی دونوں عوامل میں پوشیدہ ہے۔ ایران، جو خود کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا رہا ہے، اب ایک نئے دور سے گزر رہا ہے۔ جون 2025ء کی جنگ نے نہ صرف ایران کی معیشت کو متاثر کیا بلکہ اس کے سماجی تانے بانے کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ افغان مہاجرین کے خلاف جذبات شدت اختیار کر گئے، اور انہیں معاشی مسائل اور سماجی تنا کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ ایک معتبر رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح جنگ کے بعد افغان مہاجرین کے خلاف گرفتاریاں اور جلاوطنیاں تیز ہو گئیں۔ لیکن یہ کہانی صرف ایران کی نہیں، یہ افغانستان کی بھی ہے۔ افغان عبوری حکومت، جو 2021ء سے اقتدار میں ہے، نے اب تک کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی کہ وہ ان لاکھوں واپس آنے والوں کو کس طرح سنبھالے گی۔ واپس آنے والوں کی تعداد جتنی بڑھ رہی ہے، اتنا ہی یہ سوال اہم ہوتا جا رہا ہے کہ کیا افغانستان کے پاس ان لوگوں کے لیے کوئی منصوبہ ہے؟ کیا ان کے لیے روزگار کے مواقع ہیں؟ کیا خواتین اور بچوں کے لیے تعلیم اور تحفظ کے نظام موجود ہیں؟ بدقسمتی سے، جواب زیادہ تر نفی میں ہے۔
یہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں ہر فریق اپنی حدود کا شکار ہے۔ ایران اپنی معاشی اور سیاسی مشکلات کی وجہ سے مہاجرین کو واپس بھیج رہا ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں، جو سرحد پر امداد فراہم کر رہی ہیں، فنڈنگ کی کمی کا شکار ہیں۔ اور افغان عبوری حکومت، جو واپس آنے والوں کو قبول کر رہی ہے، اپنی پابندیوں اور محدود وسائل کی وجہ سے انہیں مناسب طریقے سے آباد کرنے میں ناکام ہے۔ اس سارے منظر نامے میں سب سے زیادہ نقصان وہ انسان بھگت رہا ہے جو اس سارے عمل کا مرکز ہے۔ اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ شاید کوئی ایک حل نہ ہو۔ لیکن ایک چیز یقینی ہے کہ اس انسانی المیے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی برادری کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہو گی۔ امدادی ایجنسیوں کو زیادہ فنڈز کی ضرورت ہے تاکہ وہ واپس آنے والوں کو فوری امداد فراہم کر سکیں۔ طالبان کی زیر قیادت حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button