Column

اطمینانِ زندگی

اطمینانِ زندگی

علیشبا بگٹی

حضرت محمدؐ نے 610عیسوی میں نبوت کا اعلان کیا، دین اسلام آیا اور ان پر قرآن پاک کا نزول ہوا، جس کے سورت الرعد کی آیت 28میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللّٰہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو، اللّٰہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی کا اطمینان، دل کا اصل سکون، نہ مال سے، نہ دنیاوی مقام سے، نہ شہرت سے، نہ طاقت سے ہے، بلکہ یہ صرف اللّٰہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کی روشنی میں اطمینانِ قلب حاصل کرنے کے ذرائع اللّٰہ کا ذکر، استغفار، صدقہ و خیرات، تلاوتِ قرآن، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، دعا، صبر و شکر، عبادات و اعمال صالح میں پوشیدہ ہے۔ دل کا سکون، صرف ذکرِ الٰہی میں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ پر توکل اور اللّٰہ کی یاد انسان کو ہر طرح کی بے چینی، گھبراہٹ اور وسوسوں سے نجات دیتی ہے۔
اطمینانِ زندگی سے مراد زندگی میں خوشی، سکون اور ذہنی اطمینان کا احساس ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش ہوتا ہے، اور اسے کسی قسم کی پریشانی یا بے چینی محسوس نہیں ہوتی۔
اطمینانِ زندگی کے حصول کے لیے کئی طریقے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں
مثبت رویہ، اپنی زندگی کے بارے میں مثبت سوچ رکھنا اور ہر حال میں شکر ادا کرنا اطمینانِ زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
معنی خیز تعلقات، خاندان اور دوستوں کے ساتھ مضبوط اور معنی خیز تعلقات قائم کرنا ذہنی سکون اور خوشی کا باعث بنتا ہے۔
صحت مند طرزِ زندگی، جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا، باقاعدگی سے ورزش کرنا، متوازن غذا کھانا اور نیند پوری کرنا۔ اطمینانِ زندگی کے لیے ضروری ہے۔
مقاصد کا تعین، زندگی میں کوئی مقصد رکھنا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا، انسان کو ایک سمت دیتا ہے اور زندگی میں خوشی کا احساس دلاتا ہے۔
شکر گزاری، اپنے پاس موجود چیزوں پر شکر ادا کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا ذہنی سکون اور اطمینان کا ذریعہ بنتا ہے۔
خود آگہی، اپنی ذات کو سمجھنا اور اپنی کمزوریوں اور خوبیوں کو جاننا اطمینانِ زندگی کے لیے ضروری ہے۔
ذہنی سکون، کے لیے خاموش فضا، جنگل و بیاباں اور پہاڑوں دیہاتوں میں جا کر رہنا گھومنا پھرنا چاہیے۔
عام طورپر مادی سہولتوں کو سکون و اطمینان کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اطمینان دل کی اس کیفیت کا نام ہے کہ جس میں انسان کو قرار آجائے اور آگے کا لالچ باقی نہ رہے، جیسے ایک شخص کو کسی خاص شہر تک جانا ہے تو اس شہر کو پہنچنے کے بعد وہ مطمئن ہوجاتا ہے، اس سے پہلے خواہ اسے اچھے سے اچھا اور خوبصورت سے خوبصورت شہر نظر آجائے، انسان بے اطمینانی سے دوچار رہتا ہے اور اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے طبیعت مضطرب رہتی ہے۔ مادی نعمتوں کی حرص جن لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالیتی ہے، اُن کی منزل کبھی آتی ہی نہیں، وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں بے چین رہتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا اللّٰہ پر یقین ہوتا ہے۔ اللّٰہ کی یاد سے ان کے دلوں کو طمانیت حاصل ہوجاتی ہے، اگر اس نے کم دولت بھی حاصل کی تو یہ سوچ کر کہ چونکہ اللّٰہ کا یہی فیصلہ ہے اور ہم اس پر راضی ہیں، اس کا دل مطمئن ہوجاتا ہے۔ نظریۂ اطمینانِ زندگی (Life Satisfaction Theory)کا کوئی ایک موجد (founder)نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک جامع اور ارتقائی نظریہ ہے جو مختلف ماہرینِ نفسیات اور فلسفیوں کی تحقیق سے ترقی پاتا رہا ہے۔ لیکن اس نظریے کو جدید نفسیات میں باقاعدہ طور پر 20ویں صدی کے آخر میں اہمیت دی گئی، خاص طور پر جب Well-being( فلاح و بہبود) اور Subjective Happinessجیسے موضوعات پر تحقیق بڑھنے لگی۔
Ed Diener( ایڈ ڈینر) ایک معروف امریکی ماہرِ نفسیات جنہیں Dr. Happinessبھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں Subjective Well-Being (SWB)پر تحقیق کی، جس میں Life Satisfactionکو ایک بنیادی جزو قرار دیا۔ ان کا نظریہ تھا کہ خوشی تین چیزوں سے بنتی ہے۔
1۔ مثبت جذبات
2۔ منفی جذبات کی غیر موجودگی
3۔ زندگی سے اطمینان (Life Satisfaction)۔
Ruut Veenhovenایک ڈچ ماہر سماجیات ہیں، جنہوں نے World Database of Happinessقائم کی۔ وہ خوشی کو life evaluationکی بنیاد پر ناپتے ہیں، یعنی فرد اپنی زندگی کو کتنا اچھا یا بُرا سمجھتا ہے۔ اطمینان زندگی آپ کے دل اور دماغ سے وابستہ طرز فکر ہے۔

جواب دیں

Back to top button