Column

جناب سلمان محمدیؓ

جناب سلمان محمدیؓ
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
جناب سلمان محمدیؓ ( فارسی) پیغمبر اکرمؐ کے مشہور صحابیؓ اور مولا علیؓ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
آپ ایک ایرانی کسان کے بیٹے تھے اور آپ کا نام روزبہ تھا۔ بچپن میں آپؓ اپنے والدین کے مذہب زرتشت کے پیروکار تھے۔ نوجوانی کے عالم میں آپ نے مسیحیت قبول کر لی۔ شام کی جانب سفر کے دوران مسیحی علما کی شاگردی اختیار کی۔ جب مسیحیوں کی زبانی حجاز میں ایک پیغمبر کے مبعوث ہونے کی پیشگوئی سنی تو وہاں کا سفر کیا لیکن بنی کلب کے ہاتھوں اسیر ہو کر غلام کی حیثیت سے بنی قریظہ کے ایک شخص کے ہاتھوں فروخت ہوئے۔ اپنے مالک کے ساتھ مدینہ آئے۔ وہاں پیغمبر اکرمؐ کی زیارت نصیب ہوئی تو ان پر ایمان لے آئے۔ پیغمبر اکرمؐ نے انہیں ان کے مالک سے خرید کر آزاد کیا اور سلمان نام رکھا۔
جناب سلمان محمدیؓ پیغمبر اکرمؐ کی حیات میں آپؐ کے بہترین صحابیؓ اور آپؐ کے چاہنے والوں میں سے تھے یہاں تک کہ رسولؐ اللہ نے آپ کے بارے میں فرمایا: ’’ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے‘‘۔ آپ نے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی اور غزہ خندق کے موقع پر مدینہ کی حفاظت کی خاطر اس کے اردگرد خندق کھودنے کا مشورہ بھی جناب سلمانؓ ہی نے دیا تھا جو مشرکین کی شکست کا موجب بنا۔
حضرت عمرؓ کی خلافت کے دوران سلمانؓ مدائن کے گورنر منصوب ہوئے لیکن اس کے باوجود ٹوکریاں بناتے تھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ جناب سلمان فارسیؓ نے طویل عمر پائی ۔ آپ نے 36ہجری میں وفات پائی۔ وفات مدائن میں ہوئی اور وہیں پر دفن کئے گئے، آپ کا مقبرہ سلمان پاک کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کے حوالے سے پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:’’ خداوند عالم نے مجھے چار اشخاص کو دوست رکھنے کا حکم دیا اور مجھے یہ خبر دی کہ ان افراد کو خدا خود بھی دوست رکھتا ہے۔ وہ افراد علیؓ، مقدادؓ، ابوذرؓ اور سلمانؓ ہیں ‘‘۔ جناب سلمانؓ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ ولادت اصفہان کے ایک دیہات ’’ جی‘‘ میں ہوئی۔ آپ نے ہجرت کے پہلے سال جمادی الاول کے مہینے میں اسلام قبول کیا۔ جناب سلمانؓ نے سنا تھا کہ آخری پیغمبرؐ کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ صدقہ نہیں کھائے گا لیکن ہدیہ قبول کرے گا۔ اسی طرح اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے دو کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔ اس لیے جب سلمان نے پیغمبر اکرمؐ سے ملاقات کی تو کجھوریں صدقہ کے طور پر آپؐ کو پیش کیں جسے آپؐ نے اپنے دوستوں میں تقسیم کر دیا اور خود ان میں سے نہیں کھائی۔ سلمانؓ نے اسے نبوت کی تین نشانیوں میں سے ایک قرار دیا، پھر کسی اور ملاقات میں آپ نے کچھ کجھوریں تحفے کے طور پر پیش کیں تو آپؐ نے تناول فرمائیں۔ تیسری بار سلمانؓ نے رسولؐ کو کسی کے تشیع جنازے میں دیکھا اور آپ کے پیچھے چل پڑے تا کہ تیسری نشانی کو مشاہدہ کر سکیں۔ پیغمبرؐ کو معلوم ہوا کہ سلمان کس چیز کی جستجو میں ہے اس لیے آپؐ نے اپنے کپڑوں کو اس طریقے سے ہٹایا کہ مہر نبوت نظر آنے لگی۔ جناب سلمانؓ نے مہر نبوت کو دیکھ لیا اور خود کو پیغمبر اعظمؐ کے قدموں میں گرا دیا اور آپؐ کے بدن مبارک کے بوسے لینے لگے اور اسلام قبول کر لیا۔
مسلمانوں کے درمیان جب مواخات قائم ہوئی تو بعض کے مطابق سلمانؓ اور حضرت ابوذرؓ کے درمیان عقد برادری کے قائم ہوئی۔
آپؓ نے صدر اسلام سے ہی جنگوں میں شرکت شروع کی اور غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں تھی جس میں آپؓ نے شرکت نہ کی ہو۔
ایران کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ نے جناب سلمانؓ اور جناب حذیفہؓ کو اسلامی فوج کی رہنمائی کے لیے ہر اول دستے میں شامل کیا۔ مدائن کی فتح کے وقت لشکر اسلام کی طرف سے ایرانی فوج کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری جناب سلمانؓ کو سونپی گئی، جناب سلمان محمدیؓ اپنی وفات تک مدائن کی والی رہے۔ ایک گورنر ہونے کے عنوان سے بیت المال سے جناب کا حصہ پانچ ہزار درہم تھا جسے وہ صدقے میں دے دیا کرتے تھے اور ٹوکریاں بنا کر اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ آپؓ نے بنی کندہ کی ایک عورت سے شادی کی۔ آپؓ کے دو بیٹے عبداللہ اور محمد تھے۔ عبداللہ نے اپنے والد سے حضرت فاطمہؓ کے لیے بہشتی تحفے والی حدیث روایت کی ہے۔ سلمانؓ کی ایک بیٹی اصفہان میں اور دو بیٹیاں مصر میں تھیں۔ جناب سلمان محمدیؓ کی فضیلت کے بارے میں ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ بہشت چار شخصیات کی مشتاق ہے، اور وہ علیؓ، عمارؓ، مقدادؓ اور سلمانؓ ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ جناب سلمان محمدیؓ کی وفات کے بعد مولا علیؓ مدینہ سے مدائن تشریف لائے اور ان کی تجہیز و تکفین کو آپ نے ہی انجام دیا، پھر ان کی نماز جنازہ پڑھا کر انہیں اپنے ہاتھوں سپرد خاک کیا۔ آپ نے اپنے کفن پر ایک شعر لکھا ہوا تھا جس کا مفہوم ہے ’’ میں کسی زاد راہ کے بغیر کریم کے پاس آیا ہوں نہ میرے پاس نیکیاں ہیں اور نہ قلب سلیم، زاد راہ لے کر جانا سب سے بڑی بات ہے جب کریم کے پاس حاضر ہونا ہو‘‘۔ ایک دفعہ آپؓ گدھے پر بغیر زین کے سفر کر رہے تھے اور پیوند لگا کرتا پہنا ہوا تھا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھ لیا کہ ’’ اے امیر ! یہ آپ ؓ نے کیا حالت بنائی ہوئی ہے؟‘‘، آپ نے جواب دیا ’’ بھائی آرام و راحت تو صرف آخرت کے لیے ہے‘‘۔ آپؓ نے کبھی گھر نہیں بنایا، ہمیشہ کسی بھی درخت یا دیوار کے سائے میں رات گزار دیتے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میں آپ کو گھر بنا دیتا ہوں، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ جب آپ نے مسلسل انکار کیا تو اس شخص نے کہا کہ اچھا میں آپ کی خواہش کے مطابق مکان بنا دیتا ہوں کہ آپ کا سر اس کی چھت سے جا لگے اور اگر لیٹیں تو پائوں دیوار سے جا ٹکرائیں۔ اس کے بعد آپ نے ہامی بھر لی اور اس شخص نے ان کو ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنا دی۔ جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ کا کل اثاثہ ایک بوسیدہ کمبل، ایک بڑا پیالہ، ایک لوٹا اور تسلہ تھا لیکن زہد تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ انتقال سے پہلے حضرت حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ آپ ؓ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ حضرت سلمان ؓ زارو قطار رو رہے ہیں۔ سبب پوچھنے پر فرمایا کہ ’’ سرورِ کائناتؐ نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ دولتِ دنیا جمع نہ کرنا اور میرے پاس اس دنیا کا اس قدر سامان جمع ہو گیا ہے، ڈرتا ہوں کہ کہیں اس اسبابِ دنیا کی وجہ سے آخرت میں آقا ؐ کے دیدار سے محروم نہ رہ جائوں ‘‘۔ مولا علیؓ سے آپ کے علم سے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: ’’ وہ ہمارے اہلِ بیت میں تھے‘‘، دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ وہ علم و حکمت میں لقمانِ حکیم کے برابر تھے‘ حضرت معاذ بن جبلؓ جو خود بھی بہت بڑے عالم تھے، ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ چار آدمیوں سے علم حاصل کرنا، ان میں ایک سلمان فارسیؓ کا نام بھی تھا۔ ایک موقع پر خود زبانِ نبوتؐ نے ان کے علم و فضل کی ان الفاظ میں تصدیق کی ہے کہ سلمان علم سے لبریز ہیں ۔ حضرت سلمان فارسیؓ صحابہ کرام ؓ کے اس مخصوص زمرے میں تھے جس کو بارگاہِ نبویؐ میں خاص تقرب حاصل تھا ۔ کم لوگ ایسے تھے جو بارگاہِ نبوتؐ کی پذیرائی میں حضرت سلمان محمدیؓ کی ہم سری کر سکتے ہوں۔ حضرت سلمان محمدیؓ میں مذہبی جذبہ کی شدت فطری تھی۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اسلام کا مکمل ترین نمونہ بن گئے، ان کے اصل فضل و کمال کا میدان یہی ہے۔ ان کا زہد و ورع اس حد تک پہنچ گیا تھا جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اسلام کی تعلیم کے خلاف رہبانیت کی طرف مائل تھے۔ وہ دنیاوی حقوق کا بھی پورا پورا لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ بھی آپ کا نمایاں وصف تھا۔ جو کچھ آپ کو تنخواہ ملتی تھی وہ کل کی کل مستحقین میں تقسیم کر دیتے تھے اور خود چٹائی بن کر معاش پیدا کرتے تھے اور چٹائی کی آمدنی کا بھی ایک تہائی اصل سرمایہ کے لے رکھ لیتے تھے، ایک تہائی بال بچوں پر خرچ کرتے اور ایک تہائی خیرات کرتے تھے۔ آپ کے ایک حکیمانہ قول پر اس تحریر کا اختتام کرتے ہیں: ’’ مجھے تین آدمیوں پر بڑا تعجب ہوتا ہے، ایک وہ جو دنیا کی طلب میں پڑا ہوا ہے اور موت اسے طلب کر رہی ہے، دوسرا وہ جو موت سے غافل ہے، حالانکہ موت اس سے غافل نہیں ہے، تیسرا وہ جو قہقہے مارکر ہنستا ہے اور نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے یا ناراض ‘‘۔

جواب دیں

Back to top button