سفرِحج: قربانی سے قرب تک

سفرِحج: قربانی سے قرب تک
کالم: فرید رزاقی
یہ سفر فقط مکہ و مدینہ کی جانب نہیں تھا، بلکہ دل و روح کی پاکیزگی، خشوع و خضوع، اور ایک ناقابلِ فراموش قربِ الٰہی کی جانب تھا۔
اللہ ربّ العزّت جب کسی بندے کو اپنے گھر، حرمِ مکّی، کی زیارت کے لیے چُن لیتا ہے، تو گویا اُسے اپنے خاص قرب میں بلاتا ہے، جیسے کوئی بادشاہ اپنے چیدہ چیدہ بندوں کو دربار میں بلاتا ہے۔ یہی حج ہے: ایک عظیم دعوت، ایک الٰہی بلاوا۔ یہ صرف ایک عبادت نہیں، بلکہ ایک قلبی و روحانی بیداری کا موقع ہے، ایسا موقع جو انسان کی پوری زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔
الحمدللہ! مجھے یہ عظیم سعادت سال 2025میں حاصل ہوئی، وہ لمحہ جس کا برسوں سے انتظار تھا۔ جب وہ لمحہ آیا، تو آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں۔ روانگی سے قبل دل کی کیفیت بیان سے باہر تھی؛ ایک عجیب سی بے قراری، جسم میں لرزش، اور آنکھوں میں ایک روحانی چمک۔یہ سفر نہ صرف جسمانی تھا، بلکہ ایک باطنی و روحانی سفر بھی تھا، جس نے میری شخصیت کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس عظیم سفر میں میرے لیے سب سے بڑی مدد اور روحانی سہارا میری اہلیہ تھیں۔ اگرچہ وہ جسمانی طور پر میرے ساتھ موجود نہ تھیں، لیکن ہر لمحہ اُن کی محبت، فکر اور دعائوں کی چھائوں میرے ساتھ تھی۔ انہوں نے حج کا سامان انتہائی اہتمام سے پیک کیا، میری ہر ضرورت کا خیال رکھا، حتیٰ کہ میرے لیے ایک خوبصورت اور مفید حج گائیڈ کے نوٹس بھی تیار کیے، جو دورانِ حج میرے لیے مشعلِ راہ بنے۔ وہ میرے آس پاس موجود تھیں، بس نظر نہیں آ رہی تھیں۔
اس سفرِ مقدس کو سہل اور آرام دہ بنانے میں جس ادارے کا کردار مثالی رہا، وہ تھا شامکو ٹریولز۔ اُن کے چیف ایگزیکٹو وقاص احمد کی قیادت میں پوری ٹیم نے جس خلوص، محبت، پیشہ ورانہ مہارت اور ایمانی جذبے سے خدمت انجام دی، وہ واقعی لائقِ تحسین ہے۔
یہ صرف سروس فراہم کرنے کا عمل نہیں تھا، بلکہ ایک محبت بھری، نیکی سے لبریز عبادت کا نمونہ تھا۔ انہوں نے پہلے حاجی کی آمد سے لے کر آخری حاجی کی واپسی تک ایک ایسا عملی نمونہ پیش کیا جو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔اسی طرح سعودی حکومت کے اس سال کے انتظامات بھی غیر معمولی تھے۔ خاص طور پر غیررجسٹرڈ حاجیوں پر پابندی نے نظم و ضبط کو قائم رکھا۔ منیٰ، عرفات، مزدلفہ اور حرم میں سکون، صفائی، اور عبادات کا جو ماحول دیکھنے کو ملا، وہ ناقابلِ فراموش تھا۔
البتہ ایک پہلو ایسا بھی رہا جو حاجیوں کے لیے آزمائش بن گیا: ٹیکسی سروسز اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ۔ حج کے ایام میں کرایوں کی شرح کئی گنا بڑھ گئی، یہاں تک کہ مکہ سے مدینہ ٹرین کی ٹکٹیں بھی عام حاجی کی دسترس سے باہر ہو گئیں۔ یہ ایک اجتماعی غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے، جو امتِ مسلمہ کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
اس پورے سفر میں جو چیز دل پر گہرا نقش چھوڑ گئی، وہ حجاج کے دلوں کی کیفیت تھی۔ ہر چہرہ ایک ہی جذبے سے روشن تھا: ’’ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے‘‘۔
آنکھیں اشکبار، دل نادم، زبان پر دعائیں۔ کوئی بوڑھے والدین کی خدمت میں مصروف، کوئی دوسرے حاجیوں کو پانی پلا رہا، کوئی کسی کی مدد کر رہا، تو کوئی چپ چاپ اپنے رب سے راز و نیاز میں مشغول۔
عرفات کا دن تو گویا دنیا کا آخری دن محسوس ہوا۔ لگتا تھا ابھی اللہ تعالیٰ کا ظہور ہوگا، اُس کا تخت عرفات میں اُترے گا، اور اُس کا سایہ ہم سب پر چھا جائے گا۔ ہر حاجی رب سے جُڑا ہوا، دنیا کی ہر فانی شے پیچھے رہ گئی تھی۔
ان مقدس لمحوں میں سب سے زیادہ دعائیں مغفرت کی تھیں۔ گناہوں کی معافی، دل کی صفائی۔ پھر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے جو دعائیں ہوئیں، اُن میں ایک درد تھا، ایک تڑپ تھی، ایک امت کا دکھ اور جذبہ تھا۔ لوگ رب تعالیٰ سے گڑگڑا کر فریاد کر رہے تھے: ’’ یا اللہ! غزہ کے مظلوموں پر رحم فرما، ان کی مشکلیں آسان فرما، انہیں آزادی اور سکون دے، ان کے بچوں کی حفاظت فرما، اور ظالموں کو نیست و نابود کر دے‘‘۔
وہ منظر دل پر ایسا نقش ہوا ہے کہ شاید زندگی بھر نہ مٹے۔ منیٰ کے خیمے، ان کی تنگی، سادگی، اور صوفہ کم بیڈ، یہ سب جیسے قبر کی مشق تھی۔ ہر لمحہ دل میں خیال آتا، موت ایک قدم کی دوری پر ہے۔ جب رات کو سوتے، تو یوں محسوس ہوتا کہ ہم دنیا کی اصل حقیقت کو جیتے جا رہے ہیں۔ مزدلفہ کی رات، کھلے آسمان تلے، زمین پر، بغیر کسی چھت کے، اللہ کے ذکر میں گزارنا ایک ایسا تجربہ تھا جس نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایسی حضوری، ایسی خاموشی، اور ایسی قربت شاید دنیا میں کہیں اور ممکن نہیں۔ اس سال حج کے دوران پاکستان کے وقار کو جس انداز میں دیکھا، وہ بھی بے حد خوش کن تھا۔ عرب و عجم میں ’’ بنیان مرصوص‘‘ کی کامیابی کا ذکر، ایران کی طرف سے اسرائیل کو جواب، اور پاکستان کے موقف نے عالمی سطح پر اُس کی اہمیت کو دوچند کر دیا۔ بھارتی مسلمان بھی پاکستان کے حق میں بولتے نظر آئے کہ: ’’ پاکستان نے مودی کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے‘‘۔ یہ سب کچھ پاکستانیوں کے لیے فخر کا باعث تھا۔
منیٰ میں ایک موقع پر ہم سب حاجی خیمے میں بیٹھے عبادات، اذکار، اور حج کے اثرات پر گفتگو کر رہے تھے۔ سید بلال قطب بھائی نے حج کے بعد کی زندگی پر تاثرات لیے۔ بیشتر افراد نے عبادات میں استقامت کی بات کی، تو میں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒکا وہ معروف اقتباس سنایا: ’’ تم دیکھتے ہو کہ ہر سال ہزارہا زائرین مرکزِ اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہو کر پلٹتے ہیں، مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِ حرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آ کر ہی اُن میں کوئی اثرِ حج کا پایا جاتا ہے۔ خدا کی قسم! اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتاتو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سُن لیتے‘‘۔ یہ الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حج صرف چند دنوں کی عبادت نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر دعوت ہے، ایک تحریک، جو عمل سے دنیا بدل سکتی ہے۔
آخر میں، میری یہی دعا ہے: یا اللہ! ہمارا حج قبول فرما۔ ہمیں بار بار اپنے گھر بلا۔ امتِ مسلمہ کو متحد کر، غزہ کے مظلوموں پر رحم فرما، اور ہمیں اس دین کا سفیر بنا جس کا سچا پیغام ہم نے عرفات میں سنا، منیٰ میں جیا، اور کعبہ کے سائے میں محسوس کیا۔
آمین یا رب العالمین





