ColumnM Riaz Advocate

احتجاج کا پروگرام تو وڑ گیا

احتجاج کا پروگرام تو وڑ گیا
تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
’’ پروگرام تو وڑ گیا ‘‘ یہ ایک ایسا جملہ تھا جو پاکستان تحریک انصاف کے شیر افضل مروت کے منہ سے فی البدیہ ادا ہوا مگر دیکھتے ہی دیکھتے زبان زد عام ہوگیا۔ یہ کہنے میں ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ پروگرام تو وڑ گیا اب ہر اُس موقع پر لکھا اور بولا جاتا ہے جب کسی شخص یا جماعت یا ادارے کا اعلانیہ دعویٰ دھرے کا دھرا رہ جائے۔ کچھ یہی حال پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 5اگست کے روز بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لئے احتجاج کے موقع پر دیکھنے کو ملا۔ بلاشک و شبہ 5اگست کی احتجاجی کال صحیح معنوں میں وڑ گئی۔ حکومتِ وقت کو احتجاجی کال کی ناکامی کا کس قدر یقین تھا، اسکا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ حسب روایت نہ تو چھوٹے بڑے شہروں اور اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستوں میں کنٹینر کی دیواریں کھڑی کرنے کی ضرورت پڑی اور نہ ہی پارٹی لیڈرشپ و کارکنان کی قبل از احتجاج گرفتاریاں کرنا پڑیں۔
5اگست کی صبح تا رات گئے تک پورے ملک کی سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہی، تفریحی مقامات، ہوٹلز، کاروباری مراکز اور سرکاری و نجی دفاتر میں معمول کے مطابق رونقیں بحال رہیں۔ سڑکوں پر پولیس و پارٹی کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کی نوبت ہی نہ آئی۔ 5اگست کی احتجاجی کال کس قدر ناکام ہوئی، اس کا اندازہ ا س بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی سو شل میڈیا اکانٹس بھی خاموش دکھائی دیئے۔ یاد رہے جب احمد شجاع پاشا، ظہیر السلام، فیض حمید ایسے کرم فرمائوں کی مہیا کردہ سہولیات دستیاب نہ ہوں تو پھر صورتحال پانچ اگست جیسی ہی ہوتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ 5اگست کی احتجاجی کال کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔ پی ٹی آئی کے مخلص، دیرینہ خیر خواہ قائدین و کارکنان عرصہ دراز ہی سے کھڈے لائن لگائے جاچکے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت صحیح معنوں میں پیراشوٹرز کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مقدمات لڑنے والے وکلاء نے پی ٹی آئی پر قبضہ جما لیا ہے۔ رہی سہی کسر ( بقول عمران خان) پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو جناب پرویز الٰہی صاحب کو پارٹی صدارت سپرد کرکے پارٹی کا خانہ خراب کر دیا گیا۔ سیاست کے رنگ نرالے ہیں، احتجاجی پروگرام کی سربراہی محمود خان اچکزئی کے سپرد کی گئی تھی، وہی اچکزئی صاحب جن کی نقلیں عمران خان کنٹینر پر مزے لے لے کر اُتارا کرتے تھے۔ 5اگست کے احتجاجی پروگرام کا نہ سر تھا نہ پیر، درحقیقت کوئی پروگرام تھا ہی نہیں۔
ایک موقع پر عمران خان کے گھر والوں کی جانب سے ان کے صاحبزادوں قاسم اور سلیمان کی پاکستان آمد اور احتجاجی پروگرام کو لیڈ کرنے کا شگوفہ چھوڑا گیا۔ پی ٹی آئی سے وابستہ یو ٹیوبرز اور قائدین نے عمران خان کے بیٹوں کی متوقع تشریف آوری پر ایسے ایسے راگ الاپے، یوں لگتا تھا کہ ادھر صاحبزادگان پاکستانی سرزمین پر قدم رکھیں گے اُدھر اڈیالہ جیل کے دروازے ٹوٹ جائیں گے، بس یہی نہیں بلکہ خان صاحب جیل سے نکلنے کے فورا بعد ایوان صدر پہنچ کر وزارت عظمیٰ کا حلف بھی اُٹھا لیں گے۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ گورنر پنجاب اور زرداری صاحب کے مقدمات لڑنے والے وکیل لطیف کھوسہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ قاسم اور سلیمان پاکستان آئیں گے تو بے نظیر بھٹو کے 1986والے استقبال سے بھی بڑا استقبال ہو گا۔ کبھی کہا گیا کہ ظالم پاکستانی حکمران ان کو ویزے جاری نہیں کر رہے تو کبھی ان کے NICOPیعنی سمندر پار پاکستانی شناختی کارڈ کی گمشدگی کا ڈرامہ کیا گیا۔ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ اگر عمران خان کے بیٹوں کے پاس پاکستانی شہریت ہے تو انکو پاکستانی ویزے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ افسوس، عمران خان کے بیٹوں کی پاکستان آمد کی پھلجڑی بھی جگ ہنسائی کا باعث بنی۔
تحریک انصاف کے پیارے دوستوں کے سامنے چند سوالات رکھنا چاہتا ہوں کہ کیا عمران خان کے بیٹے اور بیٹی احتجاجی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا بشریٰ بی بی کے بیٹے اور بیٹیاں احتجاجی تحریک کا حصہ بن رہی ہیں؟ مان لیا ظالم حکومت عمران خان کے بچوں کو ویزے یا سمندر پار پاکستانی کارڈ نہیں دے رہی، لیکن عمران خان کے بچوں کو لندن میں پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلیوں یا مظاہروں میں شرکت کرنے سے کون روک رہا ہے؟ عمران خان کے بچے اپنے والد کی رہائی کے لئے امریکہ یاترا کر سکتے ہیں مگر لندن مظاہروں میں شرکت کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
کیا تحریک انصاف کے صدر پرویز الٰہی و دیگر کلیدی عہدیدار اور ان کی اولادیں احتجاجی تحریک کا حصہ بن رہی ہیں؟ اگر جواب ناں میں ہے تو تحریک انصاف کے دوستوں کو مشورہ ہے کہ ڈنڈے سوٹے کھانے اور جیلیں بھگتنے کی بجائے گھر میں سکون سے بیٹھیں۔ یاد رہے نو مئی مقدمات میں سزا یافتہ افراد کبھی نہ کبھی تو جیلوں سے رہا ہو ہی جائیں گے۔ سیاسی قد کاٹھ اور امیر گھرانوں کے افراد کا چولہا ان کی غیر موجودگی میں بھی چلتا رہے گا، مگر لیڈروں کی محبت میں غریب کے بچے اور ان کے خاندان رہائی ملنے تک رُل جائیں گے۔ اس لئے غریب کے بچوں کو نصیحت ہے کہ سیاسی لیڈرشپ کی محبت اور اندھی تقلید میں اپنا نہیں تو اپنے خاندان والوں کا ضرور سوچیں۔

جواب دیں

Back to top button