بیدار ہوتا شیر

بیدار ہوتا شیر
محمد مبشر انوار
انتہائی کشیدہ حالات کے باوجود خوش کن اور امید افزاء خبریں سنائی دے رہی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شر کے بطن سے خیر برآمد ہونے کو ہے البتہ اس خیر کے برآمد ہونے میں ہنوز وقت باقی ہے۔ جن خوش کن اور امید افزاء خبروں کی بابت بات کرنا چاہ رہا ہوں ،ان میں سر فہرست تو سعودی عرب اور فرانس کی فلسطین کے حوالے سے مشترکہ کانفرنس ہے، جس کے انتہائی سے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو چکے ہیں کہ امریکہ بظاہر اپنی پوری کوشش و کاوش کے باوجود غزہ میں جاری نسل کشی کو رکوانے میں ناکام رہا ہے تو دوسری طرف اس کا دوغلا چہرہ بھی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوتا جا رہا ہے گو کہ یہ امریکی چہرہ عرصہ دراز سے دنیا کے سامنے عیاں ہے لیکن اس کا ردعمل دنیا کی طرف سے ویسا نہیں دیا جاتا رہا جیسا اس کانفرنس کے بعد امریکہ کو مل رہا ہے۔ سعودی عرب و فرانس کی اس کانفرنس نے دنیا کے بیشتر ممالک کو یہ حوصلہ و جرآت فراہم کر دی ہے کہ وہ ممالک جو پہلے اسرائیل کے خلاف لب کشائی کرنے سے قبل امریکی جبین پر ابھرنے والی شکنوں سے گھبرایا کرتے تھے، اس کانفرنس کے بعد، کئی ایک ممالک نے ان شکنوں کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہوئے، آزادانہ فلسطین کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور کئی ایک ممالک نے ستمبر کا انتظار کئے بغیر ہی فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیا ہے۔ اس کاوش میں بہرطور برطانوی وزیراعظم کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جن کے دوٹوک و بے باک موقف نے صدر ٹرمپ کی سٹی تو گم کی ہی تھی اس کے ساتھ ساتھ برطانوی وزیراعظم کی اس جرآت کے بعد ہی ان ممالک کو یہ حوصلہ ملا کہ انہوں نے ببانگ دہل فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ قوی امید ہے کہ ستمبر میں باقی دنیا کے اکثر ممالک بھی فلسطینی ریاست کو باقاعدہ و باضابطہ طور پر تسلیم کر لیں گے کہ ستمبر میں اقوام متحدہ باقاعدہ طور پر فلسطینی ریاست کا اعلان کرنے جارہی ہے تو قبل از وقت مختلف ریاستوں کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، اس کے لئے بھی آسانیاں ہی کرے گا بشرطیکہ امریکہ نے آخری لمحے بالکل ننگا ہونے کی کوشش نہ کی وگرنہ اس حوالے سے سعودی عرب کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ گو کہ ان کاوشوں سے تاحال اسرائیل کی درندگی ، غزہ میں ختم نہیں ہو سکی اور نہ ہی اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود غزہ کے شہریوں کو غزہ سے بے دخل کر سکا ہے اور نہ ہی اپنے یرغمالیوں کو رہائی دلوا سکا ہے۔ گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھنے والی ریاست کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ گذشتہ دو برس سے وہ غزہ کی مختصر سی پٹی پر مسلسل آتش و آہن و گولہ بارود سے برسر پیکار ہے ،تین اطراف سے غزہ کو گھیرے ہوئے ہے لیکن تاحال اپنے یرغمالی بازیاب نہیں کروا سکا،جس کا ایک پس پردہ مقصد بہرطور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یرغمالی ’’ ہنی ٹریپ‘‘ ہوں جبکہ اصل مقصد غزہ کو ہتھیانا اور شہریوں سے خالی کروانا ہو،جس میں اسرائیل ابھی تک ناکام ہے اور اسرائیل ایسی ریاست کی یہ کارکردگی بہرطور بدترین شکست ہی تصور ہو گی۔علاوہ ازیں! جو ناقابل شکست ہونے کاتاثر اسرائیل نے اپنے پڑوسی ممالک پر قائم کیا ہوا تھا،اس تاثر کے چیتھڑے اڑ چکے ہیں اور ببول کی شاخوں میں الجھی ہوئی وہ تارتار ریشمی اوڑھنی کا منظر پیش کررہا ہے کہ لبنان میں سید حسن نصراللہ کو شہید کرنے ،شام میں بشارالاسد کا تختہ الٹنے ،ایران کے سفارتی عملے کو شہید کرنے ،اسمعیل ہانیہ کو ایران میں شہید کرنے کے علاوہ ایران پر براہ راست جنگ مسلط کرکے ایران کی اعلی ترین قیادت کو شہید کرنے کے باوجود،جو درگت اسرائیل کی بنی ہے،ایسی معرض وجود میں آنے کے بعد روئے زمین پر کسی نے نہیں دیکھی۔ایران کے ساتھ چھیڑ خوانی کا جو مزہ اسرائیل نے چکھا ہے،وہ مدتوں یاد رہے گا البتہ اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعدمعاملات کیا رخ اختیار کررہے ہیں؟ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس جنگ سے قبل تک انتہائی سرد ہو چکے تھے گو کہ اس کے دوران بھی پاکستان نے پس پردہ جو کاوشیں کی،اس سے ایرانی قیادت بخوبی واقف ہے لیکن جس طرح کا جال ایران میں بنا گیا تھا،اس سے نکلنا اتنا سہل نہیں تھا تاآنکہ اسرائیل نے ایران کے اندر سے جارحیت کا ارتکاب کرکے ،اس سارے نیٹ ورک کو ازخود آشکار کر دیا اور ایران کی آنکھیں مکمل طور پر کھول دیں۔ کس طرح یہودیوں اور ہندوؤں نے ایرانی نظام کواپنے ہاتھوں میں کس رکھا تھا،سب طشت ازبام ہو گیا،ایران نے فوری طور پر اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دی،گو کہ اس سے قبل ہی ان کی دیرینہ پرخاش سعودی عرب کے ساتھ طے ہو چکی تھی جس کے متعلق پاکستانی کردار اور بلآخر چین کی کاوشوں سے دو مسلم ریاستیں اکٹھی ہوئی،اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنارہی ہے۔اس حوالے سے ہی ایرانی نو منتخب صدر کا کامیاب دورہ پاکستان بھی ہو چکا ہے اور دونوں برادر پڑوسیوں کے درمیان بیشتر معاملات پر اہم پیشرفت ہو چکی ہے بالخصوص ملحقہ سرحدوں کے حوالے سے انتہائی اہم ترین پیشرفت کی شنید ہے کہ جس کا شکوہ اور مطالبہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے کرتے رہے ہیں حالانکہ اس میں کلبھوشن یادیو جیسے بدکردار ملوث رہے ہیں۔بہرطور گرد بتدریج چھٹ رہی ہے اور گزشتہ صدی میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے بعد ،جو ناپاک خنجر اسرائیل کی صورت خطہ عرب میں پیوست کیا گیا تھا اور جو مذموم ارادے مغرب نے اس خطہ اور مسلمانوں کے متعلق پال رکھے تھے،ان کے وہ بدخواب ٹوٹتے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان جو دراڑیں مسالک کے حوالے سے ڈالی گئی تھی،ان میں کمی کے آثار دکھائی دیتے ہیں کہ صرف غیر مسلم ہی اپنی الگ شناخت کے باوجود ایک مقصد کی خاطر اکٹھے نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے مخالفین بھی،خواہ ان میں کتنی ہی دراڑیں کیوںنہ ڈالی جائیں،وہ بھی اپنی الگ شناخت قائم رکھتے ہوئے،اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ مسلم ممالک گذشتہ دو برس سے غزہ میں جاری نسل کشی میں دنیا کا بالعموم جبکہ امریکہ کا رویہ بالخصوص دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح خون مسلم کی ارزانی پر امریکہ ظالم کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ اسے مسلسل مواقع فراہم کررہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوجائے اور غزہ کو ہڑپ کر جائے۔ اس ضمن میں امریکی حکومت کوئی بھی ہو،اس کی انتظامیہ سوائے ’’ آنیوں جانیوں ‘‘ کے ،کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے قاصر ہے اور یہودیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے دکھائی دیتی ہے، خواہ اس کے پیچھے وجہ کوئی بھی ہو جیسا کہ آج کا ٹرمپ کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ ٹرمپ کو بھی بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے،جس کی وجہ سے وہ کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ ویسے تو دونوں باتیں ہی ممکن ہیں کہ واقعتا ٹرمپ بلیک میلنگ کا ہی شکار ہوں لیکن یہ بلیک میلنگ اگر ہے بھی تو اسرائیل کے حوالے سے ہی ہو سکتی ہے جبکہ ٹرمپ بالعموم جنگیں رکوانے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے کے باوجود،جنگیں رکوانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ پاک بھارت جنگ میں ،جنگ بندی بہرحال پاکستانی مصلحت دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان ایک طویل جنگ لڑنے کا بوجھ اٹھا پائے گا یا نہیں،اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور جنگ ختم کرنا بہرطور اتنا آسان نہیں اور نہ ہی درون حالات پاکستان کے لئے یہ ممکن تھا کہ بھارت کو مکمل نیست و نابود کر دے،البتہ اس کا وقت ان شاء اللہ ضرور آئے گا اور تب پاکستان بھارت کو مکمل طور پر نیشت و نابود بھی کرے گا اور اس کے حکمرانوں کو پابہ زنجیر کھینچتا ہوا بھی لائے گاکہ اس وقت خطے میں مسلم طاقت بہرطور پاکستان ہی ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹوں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ ہمیشہ غیر مسلموں کی یہ دلی خواہش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کرہ ارض کو مسلمانوں سے پاک کیا جائے جبکہ بطور مسلمان اور کلمہ گو میرا یہ ایمان ہے کہ امت مسلمہ آج اپنی بداعمالیوں کے باعث قعر مذلت میں ہے لیکن اس کا یہ مقام ہمیشہ کے لئے نہیں ہے،اسے اس پستی سے بہرحال نکلنا ہے اور اللہ کا نظام دنیا پر قائم کرنا ہے۔ غیر مسلموں نے اپنا پورا زور اسے ختم کرنے پر لگایا ہے،اسے راہ حق سے گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے،اس میں ہمارا اپنا قصور بھی ہے کہ ہم اللہ کے احکامات سے صرف نظر کرتے ہیں لیکن بہرطور اس کی وحدانیت کا کلمہ پڑھتے ہیں، اس کی عسکری قوت کو اپنے زیر نگین رکھا ہے،اس کے دل میں اپنی ہیبت و خوف طاری کررکھا ہے،اس کے اتحاد میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں،اس کو سلانے کی پوری کوشش کی ہے بلکہ اس کو سوتی میں ہلاک کرنے کی کاوشیں بھی کی ہیں لیکن نہ وہ اسے پوری طرح سلا سکیں ہیں اور نہ ہی نیم غنودگی میں ہلاک کر سکے ہیں۔ کوئی بھی قوم آخر کب تک سو سکتی ہے؟کب تک اپنی گم گشتہ شاہراہ سے دور رہ سکتی ہے؟کب تک پارہ پارہ رہ سکتی ہے ؟اس کا ادراک بہرطور غیر مسلم کو ہے کہ جیسے ہی یہ قوم بیدار ہوئی،یہ اپنی گم گشتہ شاہراہ پر گامزن ہو کر،متحد ہو کر اپنے جسم کو پارے سے بھر سکتی ہے،آثار بہرحال ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ غیر مسلم سوئے ہوئے اس شیر کو ختم نہیں کر سکے لیکن اب یہ شیر بیدار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔





