Column

ہر قدم پر ابلیس کا ڈر

ہر قدم پر ابلیس کا ڈر
کالم : صورتحال
تحریر: سیدہ عنبرین
خاکی ہوں، نوری ہوں یا ناری ہوں، سب کا رخ چین کی طرف ہے، مگر بے چینی ختم ہونے میں نہیں آرہی، بلکہ بڑھتی ہی نظر آتی ہے۔ ناکامیوں کی داستان تو بہت طویل ہے، ایک پہلو یہ ہے کہ چینی بھی کنٹرول نہیں ہو سکی۔ مافیا کی کئی روز سے دیہاڑی نہیں لگی تھی، سب اکٹھے ہوئے اور چینی ایکسپورٹ کا آئیڈیا پیش کیا۔ ایک سنجیدہ مزاج سیاستدان کو کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔ جنہوں نے دو طرف کی بات سننیں کے بعد فیصلہ کیا کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، فیصلہ بڑے صاحب یعنی سب سے بڑے صاحب بلکہ ریٹائرڈ ہرٹ صاحب کو ناگوار گزرا، اہل خاندان اکٹھے ہوئے، انہوں نے شکایت لگائی کہ اگر ہر طرف سے ’’ منہ گورا‘‘ کرانے کے بعد ہم اپنی من مانی نہیں کر سکتے تو لعنت ہے ایسے اقتدار پر۔ بس یہ طعنہ کھا گیا، پس سب سے پہلے چینی ایکسپورٹ کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کرنے والے کو تبدیل کیا گیا، پھر ماہر امور خزانہ اور خارجہ کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا کر دوبارہ اجلاس طلب کیا گیا، جس میں نئے سربراہ نے نیا فیصلہ دیا کہ چینی ایکسپورٹ ہو سکتی ہے، اس برآمد سے ملک میں چینی کی قیمت ہر گز نہیں بڑھے گی، چینی صرف ایک جنس نہیں اس سے جڑی اور بھی کئی باتیں ہیں، کئی معاملے ہیں، اس میں خزانے اور خارجہ امور کا بڑا دخل ہے، بس اسی اہمیت کے تحت اس کی ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی، مال باہر گیا، مال کمایا گیا، چینی کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں، عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ ہوا، امپورٹ کا فیصلہ بھی گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں ہو گیا۔ اب چینی آچکی ہے۔ آئی ایم ایف کی پابندیاں ہوا ہو گئیں۔ شور مچا تو سرخ لائٹ جلنے بجھنے لگی، اس سگنل پر انکوائری شروع ہوئی، انکوائری بھی وہی کر رہے تھے جنہوں نے یہ فیصلے کیے تھے۔ وفاقی حکومت کے سربراہ جناب وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ تین سو ارب لوٹنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائیگا۔ کہانی میں بتایا جارہا ہے کہ وزیر اعظم چینی کی ایکسپورٹ کے حق میں نہ تھے، لیکن بزرگوں کے اصرار پر جب فیصلہ تبدیل ہو گیا تو اپنے پرائے سب کے سب فیض یاب ہوئے، پانچوں انگلیاں گھی میں اور سب کے سر کڑاہی میں نظر آئے، ایک ادارے نے مجرموں کے نام مانگے تو حکومت نے نام دینے سے انکار کر دیا۔ سوشل میڈیا پر مالکان شوگر ملز کے نام آچکے ہیں۔ ذمہ دار صحافی حضرات نے کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا ہے، کون سی مل کس کی ہے اور کس نے کتنے ارب روپے کمائے ہیں مالکان کے نام پیش کرنے کی بجائے مینجرز کے نام سامنے لائے گئے ہیں۔ ای سی ایل میں بھی کسی مالک کا نام نہیں ڈالا گیا، جن کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں انہیں کہا گیا ہے فکر نہ کریں جو ڈالنا جانتے ہیں وہ نکالنا بھی جانتے ہیں۔ وفادار ملازمین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ جن کے ملازم ہیں وہ دخول و خروج کے ماہر ہیں اور اس حوالے سے اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ باقی رہا معاملہ آہنی ہاتھوں نپٹنے کا تو آہنی ہاتھ سے کسی کا گلا بھی پکڑا جاسکتا ہے اور ایک ہاتھ کے فاصلے پر کھڑے شخص کو کھینچ کر گلے سے بھی لگایا جا سکتا ہے، امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے آہنی ہاتھوں سے آہنی جپھی ڈالی جائیگی، جس کا مطلب ہوگا نئی دیہاڑی کی تیاری کرو۔ چینی ڈکیتی سے قیل بجلی ڈکیتی کی خبر میڈیا میں چنگھاڑتی رہی ہے، جس میں 244ارب کے قریب اوور بلنگ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس سے پہلے بھی ایسی ہی ایک بجلیاں گرانے والے واردات ہوئی تھی، واضع رہے یہ تینوں معاملے ’’ بے قاعدگی‘‘ کے کھاتے میں نہیں ڈالے جاسکتے۔ یہ معاملہ سراسر لوٹ مار کا ہے۔ بے قاعدگی والے اکائونٹ میں تو دس کھرب روپے کے معاملات ہیں، جو پبلک اکائونٹس کمیٹیوں میں نہیں ایک آڈٹ رپورٹ میں سامنے آءے تھے اور بہت پیچھے چلیں تو ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک سرکاری مشیر جناب جوندہ صاحب نے بتایا تھا کہ فیک اکائونٹ، فیک کمپنیاں اور عرصہ دراز سے بند کمپنیوں کے ذریعے ایف بی آر ریونیو کے اکائونٹس سے 235روپے نکلوا لیے گئے ہیں۔ یہ خطیر رقم نکلوانے والے نامعلوم افراد تھے۔ جن میں تمام غیر ممالک جاچکے ہیں، ان کے سہولت کار محکمہ کے ملازم تھے، سب کو ضمانت کی سہولت حاصل ہے۔ ضمانت کی سہولت انہیں حاصل نہیں جن پر الزام ہے انہوں نے دل ہی دل میں چودھری نظام کو برا بھلا کہا، اس سنگین جرم کی سزا طویل قید ہے، جو وفتاً فوقتاً سنائی جا رہی ہے۔ علی الاعلان برا کہنے والوں کیلئے جزا ہے۔
خدا اور ابلیس کے درمیان مکالمہ ہوا، ابلیس نے خدا کے بنائے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، خدا نے اسے محبوب فرشتوں کی صفت سے نکال دیا تو ابلیس نے کہا کہ میرے تیرے بندوں کو بہکائوں گا۔ خدا نے کہا تو انہیں نہیں بہکا سکے گا جو در حقیقت میرے بندے ہیں، ابلیس نے کہا اے میرے رب مجھے مہلت دے دے، پوچھا گیا کتنی، ابلیس نے کہا جب تک قیامت نہیں آتی، خدا نے اسے مہلت دے دی، ابلیس نے مہلت بھی اس سے مانگی جس سے وہ اختلاف کر رہا تھا، خدا کی مہربانی بھی دیکھئے مہلت بھی اسی دی جو علی الاعلان کہہ رہا تھا کہ میں خرابی پیدا کروں گا، تیرے بندوں کو بہکائوں گا، ان کا خانہ خراب کرونگا۔ پس ابلیس انسانوں کو بہکا رہا ہے، انسان بہک رہے ہیں، جن کے پاس جتنا زیادہ اختیار ہے وہ اتنا زیادہ بہک رہے ہیں اور راہ راست پر آنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے آقا ابلیس کو قیامت تک انسانوں کو بہکانے کی مہلت ملی ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انہیں بھی تا قیامت بہکنے کا حق حاصل ہے۔
بہکے ہوئے لوگوں کے کارنامے دیکھیں۔ دو سیاستدانوں نے موٹر وے بنانے کیلئے بھاری سود پر قرض لیا، پھر یہ قرض اتارنے کیلئے قرض لیا، پھر اس قرض کو اتارنے کیلئے موٹر وے گروی رکھ دی۔ دوسرا کارنامہ تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹم بم بنا لیا، لیکن چند ملک دشمن افراد کنٹرول نہ کئے جا سکے، ان کی مخالفت کے سبب کالا باغ ڈیم نہ بنایا جا سکا، کالا باغ ڈیم سے بجلی بنانے کی بجائے سبز باغ نامی پراجیکٹ لایا گیا، جسے آج ہم آئی پی پی پیز کے نام سے جانتے ہیں۔ معیشت کو چار چاند لگانے کیلئے فیصلہ نہایت قابل تعریف ہے۔ جائیداد خریدنے پر ٹیکس کم کر کے اسے فروخت کرنے پر ٹیکس لگایا گیا ہے، یہ مافیا کی سہولت کیلئے کہ رشوت کی دولت کو ٹھکانے لگائیں اور ٹیکس سے بچیں، جب فروخت کرنے کی ضرورت ہو گی تو جائیداد خریدنے پر ٹیکس لگا دیں گے، فروخت سے ہٹا لیں گے۔ خدا کرے ابلیس کی مہلت جلد ختم ہوجائے۔ اللہ کے بندے آزادانہ سانس لے سکیں، ہر قدم پر ابلیس کا ڈر ہے۔

جواب دیں

Back to top button