ColumnImtiaz Aasi

پی ٹی آئی کا احتجاج اور گرفتاریاں

پی ٹی آئی کا احتجاج اور گرفتاریاں
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
بظاہر سیاست دان سیاسی جماعتوں کے پرامن احتجاج کے آئینی حق کو تسلیم کرتے ہیںلیکن اقتدار میں آنے کے بعد پرامن احتجاج کے اپنے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں۔ حکومتی وزراء کے آئے روز کے بیانات اگر پی ٹی آئی پرامن احتجاج کرتی ہے اسے روکا نہیں جائے گا۔ حکومتی وزراء کے ان دعووں کی حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب کوئی سیاسی جماعت پرامن احتجاج اور جلسوں کے انعقاد کی درخواست کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے بیانات میں تضاد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے پی ٹی آءی کے پرامن احتجاج سے ایک روز قبل کئی سو ورکرز کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں گرفتار کر لیا گیا ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کو جس طرح پامال کیا گیا وہ حکومتی وزراء کے منہ پر طمانچہ ہے۔ درحقیقت غیر منتخب حکومت ہمہ وقت اقتدار سے ہٹائے جانے کے خوف کے پیش نظر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کو ہر ممکن روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ خوف کا یہ عالم تھا سینٹرل جیل راولپنڈی کے اردگرد پولیس کے بھاری نفری تعینات کی گئی اور جیل آنے آنے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں، جیسے پی ٹی آئی ورکرز عمران خان کو جیل سے نکال کر لے جائیں گے۔ عجیب تماشا ہے جس طرح جمہوری اقدار کو موجودہ دور میں پامال کیا جا رہا ہے مارشل لاء دور میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ الحمدللہ اس ناچیز کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں مگر حقیقت یہ ہے حکومت سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی سے اس قدر خوف زدہ ہے پی ٹی آئی کو کسی قسم کا احتجاج خصوصا صوبہ پنجاب میں کرنے کی متحمل نہیں ہو رہی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا پنجاب کو مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھنے والوں کو ضمنی الیکشن میں ان کے اس دعویٰ کی حقیقت واضح ہوگئی تھی پنجاب مسلم لیگ نون کا قلعہ ہے۔ ہم پنجاب کی وزیراعلیٰ اور قائد جمہوریت میاں نواز شریف کی ہونہار بیٹی کے عوام کے لئے شروع کئے جانے والے فلاح و بہبود کے منصوبوں کی ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن وزیراعلیٰ نے کبھی بڑے شہروں میں بغیر نقشوں رہائشی علاقوں میں پلازوں کی غیر قانونی تعمیر کا نوٹس لیا ہے۔ مسلم لیگ نون سے وابستہ بعض لوگ راولپنڈی کے پوش علاقہ سٹیلائٹ ٹائون میں ٹی ایم او سے نقشہ پاس کرائے بغیر بڑے بڑے غیر قانونی پلازے تعمیر کر رہے ہیں کیا وزیراعلیٰ کو ان کا نوٹس نہیں لینا چاہیے؟ سوال ہے رہائشی علاقوں میں غیر قانونی پلازوں کی تعمیر سے عوام آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کو ووٹ دیں گے؟ راولپنڈی شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں غیر قانونی تعمیرات نہ کی جا رہی ہوں کیا حکومت ان معاملات سے بے خبر ہے؟ہر گز نہیں راولپنڈی کے باسی پنجاب حکومت کی بے حسی اور بے خبری پر حیران ہیں؟ اس ناچیز نے کئی ادوار دیکھے مگر موجودہ دور میں تو حد ہو گئی ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے آپریشن بھی کیسا ہے بلدیہ کے ملازمین آمد سے قبل انہیں فون پر بتا دیتے ہیں ادھر ادھر ہو جائیں وہ آرہے ہیں۔ ہماری کئی عشروں پر مشتمل حیاتی میں کبھی اس طرح کی صورت حال دیکھنے کو نہیں ملی جو حال آج کل ہو رہا ہے۔ شائد عوام سے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا بدلہ لیا جا رہا ہے ۔ایک حکومتی نمائندے نے انتخابات کے بعد اپنے ہاں آنے والوں کی مٹھائی اس عذر کی بنا واپس کر دی تم لوگوں نے مجھے ووٹ لے کر نہیں دیئے لیکن فارم 47پر میری کامیابی پر مبارکباد دینے آئے ہو۔ ایک حکومتی تجزیہ نگار کا کہنا ہے پنجاب میں پی ٹی آئی کا احتجاج ناکام رہا اور عوام باہر نہیں نکلے۔ میرا سوال ہے احتجاج سے قبل لوگوں کو گھروں سے اٹھا لیا جائے اور سڑکوں پر ناکی لگائے ہوں تو کیا عوام گھروں سے باہر نکلیں گے؟ اس ناچیز کے نزدیک کم از کم پنجاب اب مسلم لیگ نون کا قلعہ نہیں رہا ہے بلکہ پی ٹی آئی کا قلعہ بن گیا ہے۔ الحمدللہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں نہ پی ٹی آئی میں مجھے کوئی جانتا ہے مگر حق بات کرنا میرا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اگرچہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے عوام جس طرح باہر نکلے ہیں ایک تاریخی ریلی تھی جو کئی میل لمبی تھی جس سے وزیراعلیٰ خطاب نہیں کر سکیں ہیں۔ ہاں اگر پنجاب حکومت پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت دیتی اور گرفتاریاں نہ کرتی تو مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتوں کو لگ پتہ جاتا عوام عمران خان کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ درحقیقت عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے بے زار ہیں باوجود اس کے دونوں جماعتیں کئی بار اقتدار میں رہ چکی ہیں غریب عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے پی ٹی آئی دور میں عمران خان نے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی تھیں لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے عمران کے خلاف نہ نیب کوئی مقدمہ بنا سکا نہ ہی اینٹی کرپشن کے پاس کرپشن کا کوئی کیس ہے نہ ہی عمران خان نے قومی خزانے یا کک بیکس سے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنائی ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی نے اقتدار میں نہ رہتے ہوئے شوکت خانم جیسا ہسپتال قائم کیا اور تعلیمی ادارے بنائے۔ ہماری چھ عشروں سے زائد عمر میں ابھی تک کوئی سیاست دان نہیں آیا جس نے ملک و قوم کو اغیار کی غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد کی ہو۔ یہاں تو ہر حکمران امریکیوں کے زیر اثر رہا ہے اور ہیں لیکن عمران خان نے اسلام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی شائد انہی وجوہ کی بنا وہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جیل میں ہے۔ دراصل پاکستان کے عوام کسی بڑی تبدیلی کے منتظر ہیں گزشتہ انتخابات میں جو کھلواڑ کیا گیا عوام کے مینڈیٹ پر جس طرح ڈاکہ ڈالا گیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پی ٹی آئی کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرنے کیلئے 14اگست کی تاریخ مقرر کی ہے دیکھتے ہیں پی ٹی آئی اپنی تحریک کا آغاز کس صوبے سے کرتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button