دوستی: دلوں کو جوڑنے والا رشتہ

دوستی: دلوں کو جوڑنے والا رشتہ
تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
زندگی کے تنہا راستوں میں کچھ رفاقتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی قرابتی رشتے کے بغیر بھی دل سے قریب تر ہو جاتی ہیں۔ وہ رشتہ جو نہ خون کا محتاج ہے، نہ نسب کا، نہ نسل کا اور نہ ہی کسی مفاد کا بلکہ جو دل سے دل تک جاتا ہے، وہ ہے ’’دوستی‘‘۔ یہ وہ پیوندِ قلب ہے جو انسان کو روحانی سکون، جذباتی توازن اور ذہنی آسودگی بخشتا ہے۔ فرینڈ شپ ڈے یعنی یومِ دوستی اسی بے لوث رشتے کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے، جو ہر سال اگست کے پہلے اتوار کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ رواں برس 2025ء میں یہ دن 3اگست کو آیا۔
یومِ دوستی کی ابتدا بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں ہوئی۔ اگرچہ اس کا رسمی آغاز 1935ء میں ہوا مگر عالمی سطح پر یہ دن 2011ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس کا مقصد افراد، اقوام اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی، رواداری اور اخوت کو فروغ دینا تھا۔ اگرچہ آج یہ دن گفٹ، کارڈ، بریسلیٹس اور سوشل میڈیا کے ہیش ٹیگز میں بدل چکا ہے لیکن اس کے پیچھے موجود فلسفہ بہت گہرا اور دیرپا ہے۔
دوستی ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ یہ وہ تعلق ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، بغیر کسی لالچ، بغیر کسی صلے کی تمنا کے۔ ایک سچا دوست وہ ہوتا ہے جو نہ صرف خوشیوں میں شریک ہوتا ہے بلکہ غموں میں کندھا بھی دیتا ہے، کامیابیوں پر مسکراتا ہے اور ناکامیوں میں حوصلہ دیتا ہے۔ دوستی وقت کا امتحان بھی ہے کیونکہ وقت ہی بتاتا ہے کہ کون دل سے تھا اور کون بس زبان سے۔ آج کے اس مصنوعی، تیز رفتار، مفاد پرست دور میں ایسے دوستوں کی تلاش اور پرورش نہایت ضروری ہو چکی ہے۔ ایک اچھا دوست انسان کے ایمان، اخلاق، اور علم پر مثبت اثر ڈالتا ہے، جبکہ غلط دوست گمراہی، پستی اور تنزلی کا سبب بن سکتے ہیں۔
دوستی کا تذکرہ حدیث میں بھی موجود ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا’’ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے‘‘۔ ( سنن ترمذی: 2378)۔
یہ حدیث ہمیں اس حقیقت کی طرف اشارہ دیتی ہے کہ دوستی صرف ذاتی یا سماجی تعلق کا نام نہیں بلکہ یہ روحانی تربیت اور کردار سازی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ دوستی صرف افراد تک محدود نہیں بلکہ اقوام کے مابین بھی پائیدار تعلقات کی بنیاد بن سکتی ہے۔ معاشرتی سطح پر یہ تعلق حسنِ سلوک، باہمی احترام اور قربانی کے جذبے کو جنم دیتا ہے۔ ایسے میں ایک معاشرہ خوشحال اور پُرامن ہو سکتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوں اور اختلافات کے باوجود تعلقات کو نبھاتے ہوں۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ دوستیاں بھی سوشل میڈیا کے ’’ لائک‘‘ اور ’’ کمنٹ‘‘ پر تولی جا رہی ہیں۔ وقت گزارنے والے دوست ، وقت دینے والے دوستوں پر غالب آ چکے ہیں۔ اخلاص کی جگہ افادیت نے لے لی ہے اور حقیقی قربت کی جگہ مصنوعی نمائش نے۔ ایسے میں سچے دوست کی تلاش ایک آزمائش بن چکی ہے لیکن اگر انسان خود اخلاص سے دوستی کرے تو قدرت بھی اسے ایسے دلوں سے ملاتی ہے جو حقیقت میں دھڑکتے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کو شروع ہی سے اس تعلق کی اصل اہمیت سکھانا ضروری ہے۔ والدین، اساتذہ اور معاشرتی رہنما اس رشتے کے مثبت اور منفی پہلوئوں کو سمجھا کر نئی نسل کو سچے، باکردار اور مخلص دوست بنانے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ کیونکہ دوستی صرف ایک وقتی سہارا نہیں بلکہ ایک عمر کی پناہ بھی بن سکتی ہے۔
ایک اچھے دوست کی خوبیاں کیا ہونی چاہئیں؟ وہ امانت دار ہو، باوفا ہو، حق گو ہو، غیبت و چغلی سے پاک ہو، مشکل وقت میں ساتھ دینے والا ہو اور ناصح و خیر خواہ ہو۔ اس کے برعکس اگر دوست محض دل لگی، وقتی مزاح اور دنیاوی فائدے کے لیے ہو تو وہ تعلق وقتی خوشی کے بعد روحانی بربادی کی راہ بھی کھول سکتا ہے۔
دوستی کا رشتہ انمول ہے، اس میں غرض نہیں ہونی چاہیے کیونکہ غرض جہاں آتی ہے، خلوص وہاں دم توڑ دیتا ہے۔ ایک قول ہے: ’’ دوستی دراصل وہ جذبہ ہے جو دوسرے کے لیے وہی چاہتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے‘‘۔ یہ جذبہ انسان کو انا، حسد، بغض اور منافقت جیسے نفسیاتی امراض سے بھی بچاتا ہے۔ اگر دوستی میں صدق، وفا اور ایثار ہو تو وہ دنیا میں جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔
اگر ہم میں سے ہر شخص ایک سچا دوست بن جائے تو دنیا کا ہر فرد تنہائی، غم اور محرومی جیسے مسائل سے نجات پا سکتا ہے۔ کیونکہ سچا دوست صرف ایک شخص نہیں، ایک پناہ، ایک دعا اور ایک آئینہ ہوتا ہے جو ہمیں ہماری اصل صورت دکھاتا ہے۔
آئیے! عہد کریں کہ ہم خود ایک اچھے دوست بنیں گے، اپنے دوستوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالیں گے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے اور اس رشتے کو دنیاوی تقاضوں کے بجائے انسانی اقدار کی بنیاد پر استوار رکھیں گے۔ کیونکہ دوستی وہ دولت ہے جو نہ تو خزانے میں ملتی ہے، نہ ہی وراثت میں، یہ تو دلوں کے میل، اخلاص کی زبان اور کردار کی حرارت سے حاصل ہوتی ہے۔







