Column

توازن اور حسن توازن

توازن اور حسن توازن
تحریر : صفدر علی حیدری

توازن کو زندگی کا حسن کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے زندگی میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کو یہ حسین بنا دیتا ہے اور توازن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر توازن برقرار نہ رہے تو انسان کی اپنی ٹانگیں اس کا بوجھ نہیں سہار سکتیں اور اسے گرا دیتی ہیں۔
جناب امیر کا فرمان ہے’’ صبر ایک ایسی سواری ہے جو اپنے سوار کو گرنے نہیں دیتی۔ کسی کی نظروں میں نہ کسی کے قدموں میں ‘‘۔ گویا صبر ایک انسان کی زندگی کو توازن بخشتا ہے۔ وقار عطا کرتا ہے۔ اور صبر کیا ہے رویوں کا توازن۔
وہی توازن جو حسن پیدا کرتا ہے، بگاڑ اور انتشار کا راستہ روکتا ہے۔ توازن زندگی تو کیا، کائنات کا حسن ہے۔ انسانی معاشرے کا حُسن بھی توازن سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ جدید دور میں ہر ملک کے آئین میں اداروں کے درمیان توازن کو یقینی بنایا گیا ہے۔ توازن، امورِ مملکت کی رکاوٹیں دور کرتا اور انہیں آسان بناتا ہے، توازن سیاسی استحکام کو یقینی بناتا ہے، ترقّی کا پہیّہ تیز کرتا ہے اور عوام کے لیے امن اور خوشحالی لاتا ہے۔
آج کے مروّجہ جمہوری نظام میں ریاست کے تین ستونوں یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم توازن کو یقینی بناتی ہے ۔ ہمارے ملک کی سول انتظامیہ پچھلی کئی دہائیوں سے اپنی ناقص کارکردگی، نااہلی اور کرپشن کے باعث اپنی ساکھ اور اختیارات و طاقت کا توازن کھو چکی ہے ۔
مقننہ اور عدلیہ کے پاس آئینی اور قانونی اختیارات ہیں جبکہ فزیکل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان طاقتور اداروں میں باقی تمام اداروں کو اپنا فرمانبردار یا مددگار بنانے کی خواہش بھی جڑ پکڑ چکی ہے اور کسی حد تک اس کے نظریے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ادارے اپنے طے شدہ دائروں میں رہ کر کام کریں گے تو توازن قائم ہوتا ہے ۔ اور اسی سے سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن کسی دوسرے ادارے کے قانونی اختیارات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے گا تو توازن بگڑ جائے گا جس سے ملک انتشار، بدامنی اور انارکی کا شکار ہو گا ۔
اگر ہم اپنے دین کو دیکھیں تو اس کا مرکزی نکتہ ہی مثبت طرز فکر ہے۔ اسی توازن جنم لیتا ہے ۔ ہم اگر تمام تر خلاقی اقدار کا جائزہ لیں تو ان کا مدعا بھی توازن ہی دکھائی پڑتا ہے۔
مشہور و معروف واقعہ ہے تین صحابہؓ نے قسم اٹھائی کہ وہ رات بھر عبادت کریں گے، پر روز روزہ رکھیں گے اور بیویوں کے قریب نہیں جائیں گے۔ ان کی نیت درست تھی۔ مقصد زہد کا، قرب الٰہی کا حصول تھا مگر سرکار ختمی مرتبتؐ نے انہیں اس کام سے روکا۔ اسی رہبانیت قرار دیا اور اپنی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ رات کو عبادت بھی کرتے ہیں اور سوتے بھی ہیں۔ روزہ رکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتے۔ اور بیویوں کے حقوق بھی پورے کرتے ہیں۔ پھر فرمایا’’ اللہ نے مجھے رہبانیت کے لیے مبعوث نہیں کیا ہے، سہل اور آسان دین حنیف خدا کے نزدیک تمام ادیان سے بہتر ہے ‘‘۔ گویا آپ کے اعلان فرما دیا کہ عبادت کے معاملے میں بھی توازن کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے ۔ گویا اعتدال اور میانہ روی دراصل انسانی شخصیت کے توازن کا دوسرا نام ہے ۔کتاب ہدایت میں انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت قرار دیا گیا ہے لیکن اس میں بھی احسن عمل کی شرط رکھ کر توازن پیدا کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے عبادت محض نماز روزہ نہیں ہے بلکہ انسان اگر احکام الٰہی کے مطابق زندگی گزارے تو اس کی سانس سانس عبادت ہے۔ گویا شک کی نماز سے یقین کی نیند افضل روزہ کیا ہے وہ بھی شک سیری اور بھوک کے درمیان حسن توازن کا دوسرا ہے ۔ زکوٰۃ حب مال کے توازن کا نام ہے اخلاق گفتگو کے حسن توازن کا اظہار ہے۔ شجاعت طاقت کے توازن کو کہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت اس لیے نہیں دی گئی کہ انسان دوسروں کو مغلوب کرتا پھرے ۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ کچھ نہ ملے تو واویلا کرتا ہے اور دنیا ساری مل جائے تب تذکرہ نہیں کرتا، چرچا نہیں کرتا۔ سورہ الرحمٰن گواہ ہے کہ وہ جھٹلانے والا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ نعمت الٰہی ملنے پر اپنے جیسے کسی بندے کا شکر بجا لانے لگتا ہے۔
اب ذرا غور کریں تو شکر عطا الٰہی کے اظہار میں توازن اور حسن توازن کا نام ہے۔ اگر شکوہ کرنا جانتا ہے تو اسے شکر بھی بجا لانا چاہیے۔ شکر کرنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ اس میں توازن پیدا ہو چکا ہے ۔
رشک حرص اور حب نعمت کے درمیان حد۔ فاصل ہے۔ یہ بھی توازن ہی ہے۔
صحت جسم انسانی کے توازن کا نام ہے، توکل یقین کے توازن کو کہہ سکتے ہیں، قناعت بھروسے کا توازن ہے۔ اس سے حرص کو لگام ڈالی جاتی ہے۔ زہد دنیا و مافیہا کو کھینچ کر توازن کی طرف مائل کرتا ہے۔ احساس رشتوں کا توازن برقرار رکھتا ہے۔ سچائی گفتگو کے توازن کو کہتے ہیں۔ زندگی عناصر کے حسن توازن کو کہتے ہیں۔ کفایت شعاری کنجوسی اور فضول خرچی کے درمیان توازن کا نام ہے۔ کم خوری بھوک کے توازن کو کہتے ہیں۔ اعتبار دوستی کے توازن کو کہہ سکتے ہیں۔ احساس انسانی جذبات کے توازن کا دوسرا نام ہے۔ خاموشی گفتگو کے توازن کی ایک حسین صورت ہے ۔ تحمل ( اور برداشت ) غصے کو توازن میں رکھنے کا نام ہے۔ خوراک کی جہاں تک بات ہے تو اکثر سننے کو ملتا ہے کہ انسان کو متوازن خوراک لینی چاہیے ۔ اگر کوئی انسان نامعقول رویے کا اظہار کرے تو کہا جاتا ہے، فلاں آدمی کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ عدل کی اگر بات کی جائے ( جو کہ ظلم کا متضاد ہے) تو وہ تو ہے کہ چیزوں کو ان کے مقام پر رکھنے کا نام ۔ احسان ردعمل کا حسن ہے۔ توازن کی احسن صورت۔ بردباری منفی رویوں اور منفی لوگوں کے منفی پراپیگنڈے کو توازن دینے کی عملی صورت کا نام ہے۔
گویا تمام عبادات و اخلاقی اقدار پر نظر ڈالتے جائیے آپ کو ہر جگہ اعتدال ، میانہ روی اور توازن ہی دکھائی دے گا۔
ایک عربی محاورہ ہے ’’ خیر الامور اوسطھا ‘‘ ( بہترین کام وہ ہے جو درمیانہ ہو یا بہترین امور میں اعتدال ہے)۔ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز میں حد سے زیادہ یا کم ہونا درست نہیں ہے، بلکہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا چاہیے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ افراط و تفریط دونوں ہی نقصان دہ ہیں۔ مثال کے طور پر، کھانا کھانے میں اعتدال، خرچ کرنے میں اعتدال، اور غصے پر قابو پانے میں اعتدال سبھی اس قول کی بہترین مثالیں ہیں۔ اس مختصر سے کالم میں زیادہ تفصیل سے کچھ عرض کرنا مشکل ہے، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جتنی بھی عبادات اور اخلاقی اقدار ہیں وہ کسی نہ کسی جذبے کو مثبت رخ پر رکھنے اور ان میں توازن کا حسن پیدا کرنے کی کوشش کا نام ہیں ۔ انسان اگر غور کرے تو تفہیم کی بے شمار راہیں کھل سکتی ہیں ۔
قصہ مختصر توازن انسانی جذبات و احساسات اور رویے میں افراط و تفریط کے درمیان حد فاصل کو کہتے ہیں۔
اسلام کا مرکزی نکتہ مثبت طرز فکر ہے۔ جو یقیناً اعتدال اور میانہ روی سے حاصل ہوتا ہے۔ اور اسی سے انسانی شخصیت اور انسانی معاشرے میں توازن کا حسن پیدا ہوتا ہے۔ ایک متوازن شخصیت جنم لیتی ہے۔ ایک ایسا انسان وجود میں آتا ہے جو معاشرے میں اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل ہوتا ہے۔ اور ایسے انسانوں کی معاشرے کو ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے
آخر میں یہی کہوں گا
گویا معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی توازن ہر دو کی لازمی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button