نظامِ تعلیم کے پس پردہ حقائق

نظامِ تعلیم کے پس پردہ حقائق
تحریر : سیدہ سونیا منور
تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے اساتذہ کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی شدید ضرورت ہے، تاکہ وہ طلبہ کو بہترین تعلیم سے آراستہ کر سکیں۔ جب تک اساتذہ کو جدید تعلیمی تقاضوں کے مطابق آراستہ نہیں کیا جائے گا وہ تعلیم دینے سے محروم ہی رہیں گے۔ بعض لیڈی ٹیچرز نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ طلبہ کو صحیح طریقے سے تعلیم دینے سے قاصر رہتی ہیں، جبکہ اکثر سرکاری اسکولوں کی خواتین اساتذہ کو نہ صرف پیشہ ورانہ مسائل کا سامنا ہے بلکہ ان کی ذہنی صحت اور ازدواجی زندگی بھی اس دبائو سے متاثر ہوتی ہے۔ تنخواہ، وسائل کی کمی اور اسکول میں غیر یقینی حالات جیسے کہ طلبہ کی غیر حاضری، والدین کا عدم تعاون، اور افسران بالا کی غیر ضروری مداخلت، ان کے ذہنی سکون کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ یہ دبائو اکثر ان کی گھریلو زندگی میں چڑچڑاپن، بے سکونی اور ازدواجی تنائو کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ کئی خواتین اساتذہ کو گھر اور کام کے دوہرے دبائو کا سامنا بھی ہوتا ہے، جس سے نہ صرف ان کی ذاتی خوشیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ ان کی تدریسی کارکردگی بھی خراب ہوتی ہے اور ذہنی مسائل کا شکار اساتذہ طلبہ کی تعلیم پر بھرپور طریقے سے توجہ نہیں دیتیں۔
پاکستان کے اسکولوں کی خواتین اساتذہ کی حالتِ زار ایک سنگین مسئلہ ہے، جو تعلیم کے نظام پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ یہ خواتین اساتذہ نہ صرف اکثر اوقات دیگر مسائل کا شکار رہتی ہیں بلکہ مہنگائی کے اس دور میں ان کا گزارا کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے، جبکہ ان سے پورے نظام کو سنبھالنے کی توقع کی جاتی ہے، اس کے باوجود یہ اساتذہ اپنی محنت اور جذبے سے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں، دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں کی خواتین اساتذہ کو آمد و رفت کے مسائل کا سامنا ہے۔ اکثر اسکول ایسے علاقوں میں قائم ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ سرے سے دستیاب نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے خواتین کو لمبا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے یا مہنگی سواری استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں سیکیورٹی خدشات کا بھی سامنا ہوتا ہے، خاص طور پر ایسی علاقوں میں جہاں خواتین کا تنہا سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی، جیسے صاف پانی، ٹوائلٹ، اور مناسب کلاس رومز کی کمی، خواتین اساتذہ کے لیے کام کرنا مزید مشکل بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات انہیں ایک ہی وقت میں کئی کلاسز کو پڑھانا پڑتا ہے، جس سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے اس کے باوجود حکومت کی طرف سے انہیں وہ مراعات میسر نہیں ہوتیں جس کی وہ حق دار ہیں۔
یہ تمام مسائل اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین اساتذہ کو صرف تدریسی ذمہ داریاں ہی نہیں بلکہ انتظامی اور معاشرتی چیلنجز بھی سامنا رہتا ہے، اگر حکومت تعلیم کے شعبے کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو خواتین اساتذہ کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔ انہیں بہتر تنخواہیں، تحفظ، سفری سہولیات اور کام کی بہتر جگہ فراہم کر کے ہی تعلیمی نظام کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے سرکاری اسکولوں میں خواتین اساتذہ کو ہراسانی جیسے سنگین مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جو ان کے لیے ذہنی اذیت اور خوف کا سبب بنتے ہیں۔ بعض اوقات مرد کولیگز، افسرانِ بالا حتیٰ کہ مقامی افراد کی جانب سے بدتمیزی، غیر اخلاقی رویے یا نازیبا تبصرے کیے جاتے ہیں، جنہیں شکایت کرنے کی صورت میں مزید دبائو، انتقامی کارروائی یا بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیہی علاقوں میں صورتحال اور بھی سنگین ہوتی ہے، جہاں نہ تو شکایت کے موثر طریقے موجود ہیں اور نہ ہی انہیں قانونی طریقے سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ ان واقعات کے باعث کئی خواتین عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں، جو ان کی کارکردگی اور عزتِ نفس دونوں کو مجروح کرتا ہے۔







