Column

یوم استحصال کشمیر اقوام عالم کے لیے یاد دہانی کا دن

یوم استحصال کشمیر اقوام عالم کے لیے یاد دہانی کا دن
تحریر : ایم فاروق قمر

منگولوں کی درندگی، عیسائی آرتھوڈوکس کی حیوانیت، ہٹلر کی خونخواری اور اسرائیل کی شیطانیت کا اگر کہیں ملاپ دیکھنا ہو تو مقبوضہ کشمیر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
جو سات دہائیوں سے جاری ہے اور مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک ایسے خطے میں بدل دیا ہے جہاں کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے جس نے بھارتی فوجیوں کی درندگی کا نشانہ بننے والے اپنے کسی پیارے کو دفن نہ کیا ہو۔ بھارتی مظالم کا شکار بچوں ، خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کی تصاویر بین الاقوامی میڈیا کی ہیڈ لائنز بنتی رہی ہیں۔
پون صدی گزرنے کے بعد اب بھی بھارت کی پورے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل بے پامالیاں جاری و ساری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کرہ ارض کا واحد خطہ ہے جہاں محض چند ہزار مربع میل مربع میل علاقے میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ بھارت سرزمین کشمیر پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط جاری رکھنے کے لیے اپنے تمام وسائل اور ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ مقبوضہ وادی کشمیر کا بچہ بچہ بزرگ خواتین اور ہر جوان آزادی حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
ویسے تو بھارت کے جمہوریت کا علمبردار ہونے کا ڈھول پہلے ہی پھٹ چکا تھا اور دنیا متعدد مواقع پر بھارت کا اصل چہرہ دیکھ چکی تھی مگر 5 اگست 2019ء وہ ظلم و جبر کا بد ترین دن تھا جب بھارت نے آرٹیکل 370اور 35اے، کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کا اپنا علیحدہ آئین، علیحدہ پرچم اور تمام قانونی و آئینی معاملات میں علیحدہ نقطہ نظر رکھنے کی کم از کم آئینی طور پر ہی سہی، آزادی تھی۔ بی جے پی حکومت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 35اے کو بھی ختم کر دیا دفعہ 35اے کے مطابق کوئی شخص اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ دفعہ 35اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے لوگوں کی کشمیر میں آبادکاری کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے کے طور پر جموں و کشمیر میں چھ سال اور 2190دن کے دوران لاکھوں کشمیری لوگ بے روزگار ہو گئے۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے ساتھ کشمیریوں کے بنیادی حقوق جو بھارت ایک طویل عرصے سے سلب کیے ہوئے ہے ، قانونی و آئینی طور پر بھی ختم کر دئیے گئے۔ بھارت نے یہ قدم اچانک نہیں اٹھایا بلکہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت اس کی طویل عرصے سے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس عمل کے پیچھی ہندوتوا کا انتہا پسندانہ نظریہ موجود تھا۔ اس نظریے کے تحت ایک جانب تو بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے بنیادی حقوق بھی چھین لیے گئے اور پھر عالمی برادری نے دیکھا کہ اس انتہا پسندانہ نظریے کے منفی اثرات سے بین الاقوامی سرحدیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ جب مودی کو دوبارہ حکومت ملی تو اس نے سب سے پہلے کشمیریوں پر وار کیا اور ان سے ان کی علیحدہ و خصوصی شناخت چھین لی۔ یہ عمل ہندو توا نظریے کا پرچار کرنے والی بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ بھارت جانتا تھا کہ کشمیر میں اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آئے گا ۔اس لیے آرٹیکل 370کی منسوخی سے قبل ہی 25جولائی 2019ء کو خصوصی دستے مقبوضہ کشمیر پہنچا دئے گئے تھے جس کے بعد یہاں موجود بھارتی فوج کی تعداد 9لاکھ سے بڑھ گئی تھی۔ فروری 2019ء کو پلوامہ حملے کے ڈرامے کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی سرگرمیاں بڑھا دی تھیں اور ان ہی اقدامات کو طول دیتے ہوئے یکم اگست سے مختلف علاقوں میں نیم کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔ بظاہر سکیورٹی صورتحال کو اپنے فوجیوں کے ذریعے قابو میں رکھا۔ اور پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی جو نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بھی منافی ہے ۔اس اقدامات پر اقوام عالم کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔
5 اگست یوم استحصال کشمیر بلاشبہ یہ دن اقوام عالم کیئیے یاد دہانی ہے کہ آج بھی کشمیر کو آزادی میسر نہیں۔ کشمیر کے لالہ زار اپنی قدرتی سرخیاں کھو رہے اور شہداء کی خون سے لال ہورہے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ برسوں سے جاری بھارت کے ظلم و بربریت کے خلاف کئی دن منانے کے باوجود کیا مثبت نتائج سامنے آئے؟ کیا کشمیری مسلمانوں کو ایک دن بھی چین کا نصیب ہوسکا؟
بھارتی بھارتی جنتا پارٹی ار ایس ایس کی کوک سے کوکھ سے جنم لینے والی ایک سیاسی جماعت ہے۔ جس کی بنیاد 1980 ء میں رکھی گئی۔مودی حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر و جرائم کہ بھارتی تاریخ میں سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے۔ بھارت کا مسلمانوں اور خاص طور پر کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مظلوم کشمیری ظالم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان بھارت سمیت تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہیں۔ مگر اچھے تعلقات سے انکار کے ذریعے نہیں بلکہ تنازعات کے حل کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر ایک جہد مسلسل ہے جس کو مخصوص دنوں سے منسوب کر کے صرف آواز بلند نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہر وقت، ہر لمحے، ہر گھڑی کشمیر کی آواز بلند کر دنیا کے ایوانوں میں گونجنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری عوام کا یہ عزم مصمم ہے کہ وہ بھارت کہ گھناونے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اپنی جدوجہد آزادی کو منزل کے اصول تک جاری رکھیں گے کیونکہ جنوبی ایشیا میں دیر پا امن جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر منحصر ہے۔
آخر میں غلام مُحمد قاصر کی نظم کے اشعار یاد آ گئے:
زندہ ہے پر مانگ رہی ہے جینے کی آزادی
دیو کے چنگل میں شہزادی یہ کشمیر کی وادی
حَدِ نظر تک سرو و صنوبر ہیں بھی اور نہیں بھی
ظالم کے دربار میں مہر بہ لب فریادی

ایم فاروق قمر

جواب دیں

Back to top button