شکر گڑھ کا محب وطن چودھری

شکر گڑھ کا محب وطن چودھری
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
ہمارے ہاں قومی پالیسیاں ہمیشہ عوامی مفاد سے زیادہ مخصوص طبقوں کے مفاد کو مدِنظر رکھ کر بنائی جاتی رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ رویہ آج بھی جوں کا توں جاری ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی بنیاد حق، سچ، اور انصاف پر رکھی گئی، لاکھوں شہادتیں ہوئیں، عورتوں کی عزتیں پامال ہوئیں۔ آج وہاں جھوٹ ، رشوت ، قتل و غارت اور آپس میں نفرت کے مینار کھڑے ہیں۔ قوم کو قومی حقیقت سے دانستہ دور رکھا گیا اور غیر جمہوری فیصلوں اور غیر ضروری پالیسیوں میں الجھایا گیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ’’ آئین‘‘ کو ذاتی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا۔ مفاد پرست عناصر ہر دور میں اپنی اس روش پر قائم رہے جس نے ملک کی بنیادوں کو کمزور کیا، چاہے نتیجہ ملک و قوم کیلئے کچھ بھی ہو۔ جھوٹے بیانیوں اور تیری باری میری باری ، تیرا بندہ میرے بندے نے ملکی ساکھ کو کھوکھلا کیا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کئی تاریخی فیصلے کیے، ان میں سے ایک فیصلہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے حوالہ سے تھا۔ لیکن آج ایوانوں میں، سیاسی رنجش میں بہت آسانی سے ’’ یہودی ایجنٹ‘‘ یا ’’ اسرائیلی حامی‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ میڈیا وار اور مقدمات کی یلغار شروع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ ماہ میں معروف صحافی جناب حامد میر کی کتاب ’’ سچ بولنا منع ہے‘‘ پڑھ رہا تھا۔ اس میں جناب انور عزیز چودھری مرحوم کی شخصیت اور خدمات کا ذکر نہایت عمدہ انداز میں کیا گیا۔ چونکہ میرا اپنا آبائی تعلق شکر گڑھ سے ہے اور میرے والد محترم جو ایک اسکول ٹیچر تھے ان کے دوست انور عزیز چودھری صاحب کے قریبی رشتہ دار تھے ، والد صاحب کی بھی چودھری صاحب سے سلام و دعا رہتی تھی۔
انور عزیز چودھری واقعی بہادر اور کمال انسان تھے۔ ان کی زندگی میں حب الوطنی، اصول پسندی اور سچائی کو ہمیشہ ترجیح حاصل رہی۔ پوری برادری ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ جناب حامد میر صاحب لکھتے ہیں کہ چودھری صاحب نے کبھی نواز شریف کے قریب ہونے کی کوشش نہ کی، لیکن جب ان کے صاحبزادے دانیال عزیز نے مسلم لیگ ( ن) میں شمولیت اختیار کی تو انہوں نے مخالفت بھی نہ کی۔ یہی ان کی وسعتِ ظرف کی دلیل ہے ۔ میر صاحب کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں غیر محتاط تھے لیکن اپنے بچوں کے حوالے سے بڑے محتاط تھے۔ دانیال عزیز عدلیہ کے حوالے سے بہت غیر محتاط زبان استعمال کرتے تھے۔ میر لکھتے ہیں کہ چودھری صاحب نے مجھے کئی مرتبہ کہا کہ اسے سمجھائو کہ وہ محتاط رہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ اسے نا اہل کر دیا جائے گا، پھر دانیال عزیز کو نا اہل کر دیا گیا ۔ چودھری صاحب انتقال سے پہلے شکر گڑھ کے کسانوں کے حوالے سے بہت پریشان تھے۔ کسانوں کی ان کو بڑی فکر رہتی تھی۔ اپنے حلقے کے کسانوں کو عزت دیتے، ان کو کھیتوں میں ملنے چلے جاتے، صحافیوں کے ساتھ بڑے اچھے مراسم تھے۔ جس وقت عمران خان کا دھرنا جاری تھا، کئی ٹی وی اینکر کنٹینر پر عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ انہی میں سے ایک اینکر نے اپنے پروگرام میں دانیال عزیز کی والدہ پر بے بنیاد الزام لگایا کہ وہ کرسچن ہیں۔ یہ الزام درحقیقت سیاسی اختلاف کو ذاتی حملے میں بدل دینے کی بدترین مثال تھی۔ انور عزیز چودھری صاحب کو اس بات کا سخت صدمہ پہنچا، یہ محض ان کے بیٹے پر نہیں، ان کے ایمان، ان کی اقدار اور ان کے خاندان کی حرمت پر حملہ تھا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ دانیال عزیز صاحب کی والدہ ایک امریکی نژاد مسیحی خاتون تھیں، جنہوں نے اسلام قبول کیا اور شکر گڑھ میں آ کر نہ صرف رہائش اختیار کی بلکہ پنجابی زبان بھی سیکھی۔ وہ ایک وفادار، باہمت اور بااخلاق خاتون تھیں۔ میر صاحب لکھتے ہیں کہ اس اینکر کو کیا پتہ کہ اس خاتون کا شوہر وہ شخص تھا جو یاسر عرفات کے ساتھ مل کر فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں شامل رہا۔ چودھری صاحب نے اس بے بنیاد الزام کے خلاف پیمرا اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ اینکر جو کل تک دانیال عزیز کو نشانہ بنا رہا تھا، آج اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو دیتا پھر رہا ہے اور پاکستان پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی وکالت کر رہا ہے۔
یہ رویہ نیا نہیں۔ ہمارے ہاں اگر کسی طاقتور کو خوش کرنا ہو تو سب سے پہلے علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تعلیمات کو فراموش کر کے اسرائیل کی حمایت شروع کر دی جاتی ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو سیاسی دشمنی میں دوسروں کو ’’ یہودی ایجنٹ‘‘ کہہ کر بدنام کرتے آئے ہیں۔ یہ روش دہائیوں سے جاری ہے۔
انور عزیز چودھری جیسے لوگ اس قوم کا اصل سرمایہ ہیں۔ وہ لاہور میں بانی پاکستان قائداعظمؒ کی سیکیورٹی پر بھی مامور رہے۔ سادہ انسان تھے، علاقائی ملاقاتوں کیلئے کوئی خاص انتظام نہ بھی ہو وہ کسانوں کو کھیتوں میں مل لیتے تھے۔ آج سیاسی سادگی، حب الوطنی، اصول پسندی اور برداشت سیاست سے ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ شکر گڑھ کا محب وطن چودھری نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنی نسل میں بھی سچائی اور اخلاص کا علم تھامے رہا۔ آج جب تاریخ کے آئینے میں جھانکتے ہیں، تو ایسے کردار جگمگاتے ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں، جو اندھیروں میں بھی رستہ دکھاتے ہیں، جنہوں نے سیاست سے زیادہ ملکی مفاد کو ترجیح دی۔





