کشمیریوں کو استصوابِ رائے تک امن، ترقی اور انسانیت کی فلاح ایک خواب

کشمیریوں کو استصوابِ رائے تک امن، ترقی اور انسانیت کی فلاح ایک خواب
تحریر : طلعت نسیم
5 اگست2019ء کو بھارت کی پارلیمنٹ نے اچانک اور غیر قانونی طور پر آئین کے آرٹیکل 370اور 35A کو منسوخ کر دیا۔ یہ اقدام بھارتی حکومت کی طرف سے نہ صرف بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK)کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی سازش تھی بلکہ ایک طویل المیعاد منصوبے کی عملی تعبیر بھی تھی، جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کرنا، اس کے مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کرنا اور کشمیری عوام کو ہمیشہ کے لیے سیاسی طور پر بے اختیار بنانا تھا۔ یہ دن جو آج کشمیریوں اور پاکستانیوں کی جانب سے یومِ استحصال کے طور پر منایا جاتا ہے، بھارت کے آئینی، بین الاقوامی اور اخلاقی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کی علامت بن چکا ہے۔
کشمیری عوام اور پاکستان 5اگست کو ’’ یومِ استحصال‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ جموں و کشمیر کا خطہ 1947ء میں برطانوی ہند کی تقسیم کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک بنیادی تنازعہ رہا ہے۔ اس کی حیثیت محض بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے، بھارت نے خود کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC)میں پیش کیا تھا. اس کے بعد، سلامتی کونسل نے متعدد قراردادیں منظور کیں، جن میں قرارداد 47(1948) بھی شامل ہے، جس میں واضح طور پر جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے ( ریفرنڈم) کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ قرارداد 122(1957) نے مزید یہ قرار دیا گیا کہ کشمیر کی حیثیت کا یکطرفہ طور پر فیصلہ کرنے کی بھارت کی کوئی بھی کوشش باطل ہو گی۔ حق خود ارادیت کا یہ وعدہ، جو بین الاقوامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے، تاحال پورا نہیں ہو سکا۔
آرٹیکل 370کو 17اکتوبر 1949ء کو بھارتی آئین کے حصہ XXIمیں شامل کیا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد بھارت کی مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر کی ریاست کے درمیان منفرد تعلق کی وضاحت کرنا تھا۔ اس نے بھارتی پارلیمنٹ کے جموں و کشمیر پر قانون سازی کے اختیارات کو صرف تین مضامین تک محدود کر دیا تھا: دفاع، امور خارجہ اور مواصلات۔ اس شق نے جموں و کشمیر کو اپنا آئین اور ریاستی پرچم برقرار رکھنے کی اجازت دی تھی۔ آرٹیکل 35Aجسے 1954ء میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا، جموں و کشمیر کی الگ شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم تھا۔ اس نے ریاستی مقننہ کو کشمیر کے ’’ مستقل باشندوں‘‘ کی تعریف کرنے اور انہیں خصوصی حقوق و مراعات دینے کا اختیار دیا تھا، جبکہ غیر رہائشیوں کو ریاست میں جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے یا سرکاری اسکالر شپ حاصل کرنے سے بذریعہ قانون روک دیا گیا تھا. یہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کے خلاف ایک اہم حفاظتی اقدام تھا۔
آرٹیکل 370کی سب سے اہم شق یہ تھی کہ اسے ختم کرنے کے لیے ریاستی دستور ساز اسمبلی کی منظوری ضروری تھی، جو 1957ء میں تحلیل ہو چکی تھی۔ لہٰذا آئینی اعتبار سے اس آرٹیکل کو ختم کرنے کا کوئی راستہ ہی موجود نہیں تھا۔
آرٹیکل 370کو ’’ کھوکھلا‘‘ کرنے کا عمل کئی دہائیوں سے جاری تھا۔ 50سال میں، 4صدارتی احکامات کے ذریعے، بھارتی آئین کے395میں سے 260آرٹیکلز کو بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں نافذ کر دیا گیا، جن میں یونین لسٹ کی 97میں سے 94مندرجات شامل تھیں ۔ مثال کے طور پر 1965ء میں صدرِ ریاست اور وزیر اعظم کے عہدوں کو بالترتیب گورنر اور وزیر اعلیٰ سے تبدیل کر دیا گیا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت کا کشمیر کو مکمل طور پر ضم کرنے کا پہلے سے طے شدہ طویل مدتی منصوبہ تھا۔
اس منسوخی پر بھارت کے اندر آئینی اسکالرز اور اپوزیشن کی جانب سے وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔ آئینی سکالر اے جی نورانی نے واضح طور پر کہا کہ بھارتی حکومت کا فیصلہ ’’ مکمل طور پر اور واضح طور پر غیر آئینی‘‘ تھا، یہاں تک کہ ’’ دھوکہ دہی پر مبنی‘‘ اور ’’ ریاستی طاقت کا من مانا غلط استعمال‘‘ تھا۔
بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھارت کا یہ اقدام نہ صرف غیر قانونی بلکہ ایک جارحیت کے مترادف تھا۔ چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش جنگی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ آرٹیکل 35Aکی منسوخی نے غیر کشمیری بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں زمین خریدنے، مستقل سکونت اختیار کرنے، اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کا حق دے دیا۔ یہ نہ صرف کشمیریوں کے معاشی اور سیاسی حقوق پر حملہ ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدل دینا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370اور 35Aکی یکطرفہ منسوخی 1972ء کے شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے ایک دوطرفہ معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے آرٹیکل 4(ii)میں یہ شرط ہے کہ جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (LoC)کو ’’ دونوں فریقوں کی تسلیم شدہ پوزیشنوں کو متاثر کیے بغیر احترام کیا جائے گا‘‘۔ ریاست کو یکطرفہ طور پر ضم کر کے اور پاکستان سے مشاورت کے بغیر اس کی حیثیت کو تبدیل کر کے، بھارت نے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔سات دہائیوں تک کسی بھی بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370کو چھیڑنے کی ہمت نہیں کی۔ بھارتی آئین میں ان شقوں کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ جموں و کشمیر کا بھارت سے تعلق آئینی طور پر بھی عارضی تھا۔ لیکن نریندر مودی کی حکومت نے ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ اور ’’ ہندو راشٹر‘‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے آئینی ضمانتوں کو ایک لمحے میں کچل دیا۔
اس اقدام کے بعد نہ صرف جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم ہوئی بلکہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔ یوں کشمیری عوام کو سیاسی نمائندگی، خود مختاری، اور اپنے مستقبل کے فیصلوں میں شرکت سے مکمل طور پر محروم کر دیا گیا۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ملین سے زائد بھارتی فوجی اہلکار مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں، جن کے زیر سایہ کشمیری عوام مسلسل کرفیو، گرفتاریاں، جعلی مقابلے، اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بارہا ان مظالم پر آواز اٹھا چکی ہیں لیکن عالمی برادری کے عملی اقدامات کا فقدان بھارتی جارحیت کو مزید شہ دے رہا ہے. یہ واقعات خوف اور استثنیٰ کے ماحول میں اضافہ کرتے ہیں۔ رپورٹوں میں جیل حکام کی جانب سے تشدد اور جیل کی سخت، جان لیوا حالات کی تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں۔
اپنے قبضے کو برقرار رکھنے اور اختلاف کو دبانے کے لیے، بھارت نے اپنی سیکیورٹی فورسز کو ظالمانہ قوانین جیسے مسلح افواج ( خصوصی اختیارات) ایکٹ (AFSPA)اور پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)کے تحت وسیع اختیارات دئیے ہیں۔ یہ قوانین دو سال تک بغیر الزام یا مقدمے کے حراست کی اجازت دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ AFSPAسیکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے لیے موثر استثنیٰ فراہم کرتا ہے، جس سے احتساب انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی سرگرمیاں ( روک تھام) ایکٹ (UAPA)کو صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور ناقدین کو نشانہ بنانے اور گرفتار کرنے کے لیے متعدد بار استعمال کیا گیا ہے، جس سے بنیادی آزادیوں کو مزید دبایا گیا ہے۔
5اگست، ہر سال کشمیریوں کے لیے ایک یاد دہانی بن کر آتا ہے کہ ان کا حق آج بھی سلب ہے، ان کی زمین پر آج بھی قبضہ ہے، ان کے خواب آج بھی ادھورے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستانی قوم اسے یومِ استحصال کے طور پر مناتے ہیں تاکہ دنیا کو یاد دلایا جا سکے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جہاں کے عوام کو استصوابِ رائے کا حق حاصل ہے۔ جب تک یہ حق انہیں نہیں دیا جاتا، خطے میں امن، ترقی، اور انسانیت کی فلاح ایک خواب ہی رہے گی۔





