ColumnImtiaz Aasi

نئی جیل نئے قیدی

نئی جیل نئے قیدی

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
بڑھتی ہوئے آبادی اور جرائم میں اضافے سے نئی جیلوں کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ انگریز نے جو جیلیں تعمیر کی تھیں ان میں سے بیشتر کی تزئین وآرائش کی گئی اور بہت سی نئی جیلوں کی تعمیر ہوئی ہے۔ راولپنڈی جیسے بڑے شہر میں ڈسٹرکٹ جیل کی بجائے سینٹرل جیل اڈیالہ بنائی گئی، جس میں صرف 2500قیدیوں اور حوالاتیوں کی گنجائش ہے مگر یہاں قریبا آٹھ ہزار قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی کئی لاکھ آبادی کے لئے نئی جیل ایچ سولہ میں تعمیر ہو چکی ہے، جہاں پولیس کا عملہ تعینات ہو چکا ہے، جس سے امید کی جا سکتی ہے بہت جلد اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے قیدی اور حوالاتیوں کو نئی جیل منتقل کر دیا جائے گا۔ جہاں تک سینٹرل جیل راولپنڈی کی بات ہے اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو سنبھالنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس وقت پنجاب کی مختلف جیلوں میں سانحہ نو مئی اور چوبیس نومبر میں ملوث ملزمان کو رکھا گیا ہے جن میں سے بہت سے حوالاتیوں کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں بہت جلد ہونے کا قومی امکان ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی سول ملزمان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی اجازت دے چکی ہے۔ بادی النظر میں جن ملزمان کاملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو گا انہیں تمام جیلوں سے ایک جگہ لانا ضروری ہے تاکہ ان کے مقدمات کی سماعت کرنے میں آسانی ہو۔ ہماری معلومات کے مطابق ایسے ملزم جنہیں ملٹری کورٹ میں پیش کیا جائے گا ان کی تعداد چالیس سے پچاس تک ہو گی، جن کے مقدمات کی سماعت روزانہ بنیادوں پر ہونے کا امکان ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق راولپنڈی کینٹ میں ایک نئی جیل کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے، جہاں جیل کا عملہ تعینات کر دیا گیا ہے، جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کسی نہ کسی مقدمہ میں ملوث ملزمان کو نئی جیل میں رکھا جائے گا۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کسی بھی مقدمہ کے ملزمان کو جہاں بھی رکھا جائے وہاں جیلوں کے ملازمین کی تعیناتی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اگرچہ سینٹرل جیل راولپنڈی کے اندرونی حصے میں ایک خواتین کی جیل تعمیر کے آخری مرحلے میں ہے جبکہ ڈسٹرکٹ جیل کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، جن کی تعمیر سے ایسی خواتین جنہیں سزا یابی کے بعد سینٹرل جیل ملتان منتقل کیا جاتا تھا خواتین کی جیل مکمل ہونے کے بعد انہیں یہیں رکھا جائے گا، جس سے خواتین قیدیوں کے لواحقین کے لئے بڑی آسانی ہو جائے گی، ورنہ آج کل ایسی خواتین جن کا تعلق کسی اور صوبے سے کیوں نہ ہو ان کے گھر والوں کو ملاقات کے لئے ملتان جانا پڑتا ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل کی تعمیر کے بعد راولپنڈی ضلع سے تعلق رکھنے والے حوالاتیوں کو جن کے مقدمات زیر سماعت ہوں گے انہیں ڈسٹرکٹ جیل منتقل کر دیا جائے گا، جبکہ سینٹرل جیل میں صرف قیدیوں کو رکھا جائے گا۔ سینٹرل جیل راولپنڈی پر قیدیوں کا بوجھ اس لئے بھی بہت زیادہ ہے کہ ڈسٹرکٹ جیلوں سے عمر قید کی سزا کاٹنے والوں کو سینٹرل جیلوں میں رکھا جاتا ہے، جس سے اٹک، جہلم ، چکوال اور منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو بھی سینٹرل جیل راولپنڈی لایا جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ جیلوں میں عام طور پر فیکٹری نہیں ہوتی اور قتل جیسے مقدمات میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے قیدیوں کو مشقت کے لئے سینٹرل جیلوں میں منتقل کرنا پڑتا ہے۔ اب تو جیلوں میں گندم کی پسائی شروع ہو چکی ہے، قیدیوں کی روٹی کے لئے آٹا جیل کے اندر سے ہی مہیا کیا جاتا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں بہت سی پروڈکٹس تیار کی جاتی ہیں، جنہیں مارکیٹ میں فروخت کرکے حکومت پیسے کما رہی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں جیلوں کا موازنہ کیا جائے تو آج کل جو سہولتیں قیدیوں کو میسر ہیں کئی عشرے قبل ان سہولتوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دور سے اب تک قیدیوں کی پیرول پر رہائی رکی ہوئی ہے۔ کئی ماہ بعد پیرول کمیٹی کا اجلاس ہو تو اس میں صرف چند ایک قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دی جاتی ہے۔ دراصل پی ٹی آئی دور سے پیرول پر رہائی کا اختیار کابینہ کی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے، جب تک سیکرٹری داخلہ کے پاس اختیار رہا ہے ایک، دو ماہ بعد قیدیوں کی اچھی خاصی تعداد پیرول پر رہائی پا لیتی تھی۔ بھلا کیا تک تھی سیکرٹری داخلہ سے اختیار لے کر کابینہ کمیٹی کو دے دیا گیا ہے، سیاست دانوں کی اکثریت قانون سے نابلد ہوتی ہے، اسی لئے قیدیوں کی پیرول رکی ہوئی ہے۔ انگریز دور کا قانون چلا آرہا ہے جو قیدی اپنی قیدی کا ایک تہائی حصہ کاٹ چکے ہوں اور اندرون جیل ان کا کنڈکٹ تسلی بخش ہو وہ پیرول پر رہائی کے اہل قرار پاتے ہیں۔ جب سے مسلم لیگ نون کی حکومت آئی ہے قیدیوں کو پیرول پر رہائی کا عمل رک گیا ہے، اس سے پہلے پی ٹی آئی دور میں بھی قیدیوں پر پیرول پر رہائی نہیں ملتی تھی۔ عجیب تماشہ ہے پی ٹی آئی کے دور میں کروڑوں روپے خرچ کرکے محکمہ پیرول کی تنظیم نو ہوئی اور پنجاب انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بورڈ سے سافٹ وئیر تیار کرایا گیا، جو دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ سوال ہے محکمہ پیرول میں نئی نئی اسامیوں کی تخلیق کا کیا مقصد تھا جب کسی کو پیرول پر رہائی نہیں ملنی تھی تو حکومت کو اتنے اخراجات کرنے کی چنداں ضرور ت نہیں تھی۔ پنجاب میں قیدیوں کی پیرول بڑا مسئلہ بن گیا ہے، کئی ہزار قیدی پیرول کے منتظر ہیں، لیکن سیکرٹری داخلہ سے یہ کام لے کر کابینہ کمیٹی کو دینے سے پیرول کا عمل رک گیا ہے۔ چلیں پی ٹی آئی کے دور میں قیدیوں کے ساتھ جو ہوا سو ہوا، مسلم لیگ نون نے بھی پی ٹی آئی کی پیروی کرتے ہوئے قیدیوں کی پیرول روک دی ہے۔ پیرول پر قیدیوں کی رہائی رک جانے سے محکمہ کے افسر اور ملازم بغیر کسی کام کے مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ پہلے محکمہ پیرول کا ایک ڈائریکٹر انہی افسروں سے ہوتا تھا، اب دوسرے محکموں سے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر لا کا بٹھا دیئے ہیں، جنہیں پیرول کے کام کی سمجھ بوجھ نہیں۔

جواب دیں

Back to top button