سیاسی ورکر اب سمجھدار ہو گئے ہیں

سیاسی ورکر اب سمجھدار ہو گئے ہیں
تحرہر: رفیع صحرائی
لیجیے صاحبان! 5 اگست آ پہنچا۔ 5اگست کو ہی بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر پر شب خون مار کر کشمیریوں کے حقوق غصب کیے تھے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر پوری قوم یومِ استحصالِ کشمیر منا رہی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ احتجاج کے لیے کوئی ایسی تاریخ منتخب کرتے ہیں جس سے ملک اور قوم کی تلخ یادیں جڑی ہوتی ہیں۔ اتفاق سے یہی تاریخ یعنی 5اگست ان کی گرفتاری کی دوسری سال گرہ کا دن بھی ہے۔ عمران خان نے اپنے غم کی دوسری سال گرہ منانے کے لیے ایک ایسے بھرپور، پرجوش اور ولولہ انگیز احتجاج کا اعلان کر دیا جس کا دائرہ بقول ان کے پورے ملک میں پھیل جانا تھا۔ شاید عمران خان 9مئی کے بعد ہونے والے 26نومبر کے اسلام آباد احتجاج کے دوران اپنی لیڈرشپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے کہ انہوں نے 5اگست تک انتہائی عروج پر پہنچنے والے انقلابی احتجاج کی باگ ڈور خود سنبھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ کرتے وقت وہ شاید بھول گئے کہ
وہ دن ہوا ہوئے جب پسینہ گلاب تھا
اب ’’ گڈ ٹو سی یو‘‘ کی سہولت کاری انہیں حاصل نہیں ہے۔ جیل کے اندر موجود ان کے ہمدردوں کو بھی ان سے دور کیا جا چکا ہے اور ان کی حیثیت پنجرے میں قید اس بے بس پنچھی جیسی ہے جو اپنے مالک کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ جیل کے اندر سے پورے ملک میں ہونے والے احتجاج کو کنٹرول اور مانیٹر کرنے کا دعویٰ ہی مضحکہ خیز تھا۔ اس مرتبہ تو اس پھولے ہوئے غبارے میں کسی نے سوئی چبھونے یعنی احتجاج کو موخر کرنے کے لیے بھی رابطہ نہیں کیا۔ سب کو پتا تھا یہ بوسیدہ غبارہ ہوا کا دبا برداشت نہیں کر سکے گا اور پھٹ نہ سکا تو اس کے مساموں سے خود ہی ہوا خارج ہو جائے گی۔
بانی سمیت پی ٹی آئی قیادت کو اپنی سکیم کے اس طرح غیرموثر اور بے وقعت ہونے کا شاید صحیح ادراک نہ تھا۔ وہ بھول گئے تھے کہ عرصہ دو سال میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ 9مئی اور 26نومبر کے احتجاجوں میں پی ٹی آئی ورکرز نے اپنے بانی کی زبانی طور پر دکھائی گئی خیالی جنت کے فریب میں سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ پھر جس طرح اپنے گرفتار شدہ ’’ ہیروز‘‘ کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر ان سے اظہارِ لاتعلقی کیا گیا وہ باقی ورکرز کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے کسی احتجاجی ورکر کو اون کیا گیا نہ کسی کو قانونی مدد فراہم کی گئی۔ ان بے چاروں کے لواحقین عدالتوں میں اور ورکرز جیلوں میں رُل گئے۔ عام ورکرز کی بات کیا کریں، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، پارٹی صدر چودھری پرویز الٰہی، میاں محمود رشید، یاسمین راشد اور سینیٹر اعجاز چودھری جیسے مرکزی رہنماں کے نام بھی بھلا دیئے گئے۔ پی ٹی آئی کے کسی عہدیدار، کسی رہنما، کسی وکیل، کسی ایم این ای، ایم پی اے یا سینیٹر نے جیل میں ان سے ملاقات تک کرنا گوارا نہ کیا۔ ورکرز سب دیکھ رہے ہیں کہ جب مرکزی لیڈرشپ کے ساتھ پارٹی مخلص نہیں ہے اور ان کے ساتھ قربانی کے بکرے جیسا سلوک کیا گیا ہے تو عام ورکرز کس کھیت کی مولی ہیں۔
ورکرز کو تو ظلِ شاہ کی موت بھی یاد ہے۔ اس سچے عاشق نے اپنی جان دے دی مگر کسی ایک پارٹی رہنما نے اس کے جنازے میں بھی شرکت نہ کی۔ اس کے باپ کے ساتھ تعزیت کا رعونت بھرا انداز کون بھول سکتا ہے جب اس کے بیٹے کی تعزیت کے لیے اسے زمان پارک بلوایا گیا اور منہ دوسری طرف کر کے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر حکم دیا گیا کہ ظلِ شاہ کی موت کی ایف آئی آر بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے مطابق کٹوائو۔ باپ کے انکار پر ظلِ شاہ کو ایسے بھلا دیا گیا جیسے کہ اس کا وجود ہی نہ تھا۔
دور کیوں جائیے۔ ابھی حال ہی میں سینٹ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈروں سمیت ایک سو سے زائد اہم لوگوں کو 9مئی میں دس، دس سال قید کی سزا ہوئی ہے۔ پارٹی کی طرف سے ان سزائوں کے خلاف معمولی سے احتجاج کی کال بھی نہیں دی گئی۔
ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ 5اگست کو پی ٹی آئی کے ورکرز ملک بھر میں تھرتھلی مچا دیں گے ایک دیوانے کا خواب ہی تھا۔
اس ٹھس تحریک میں جان ڈالنے کے لیے علیمہ خان نے بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کی انٹری ڈال کر سنسنی پھیلانے کی کوشش کی مگر اس تجویز کو پذیرائی نہ مل سکی۔ شاہین صہبائی نے تو ان صاحبزادگان کی امریکی ایوانِ نمائندگان کے ہمراہ پشاور ایئر پورٹ پر شاہانہ لینڈنگ اور لاکھوں لوگوں کے ہمراہ اسلام آباد پر چڑھائی کا فرضی اور دل فریب نقشہ تک کھینچ ڈالا تھا مگر رانا ثناء اللہ نے جب ان صاحبزادگان کی گرفتاری کا عندیہ ظاہر کیا تو شہزادگان کے نائیکوپ ہی گم ہو گئے جو شاید ان کے پاس کبھی تھے ہی نہیں۔ نائیکوپ بیرونِ ملک پاکستانیوں خصوصاً دوہری شہریت کے حامل دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو نادرا کی طرف سے جاری کیا گیا شناختی کارڈ ہوتا ہے جو ان کی پاکستانی شہریت کا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر خان کے بیٹوں کے پاس نائیکوپ ہوتے تو انہیں پاکستان آنے کے لیے ویزا کی ضرورت نہ پڑتی۔ حکومت پاکستان کا موقف ہی کہ اگر انہوں نے آنا ہے تو ویزا کے لیے درخواست دیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صاحبزادوں کے پاس نائیکوپ ہوتا تو حکومت ویزا کی درخواست کے لیے انہیں کبھی نہ کہتی۔ ویسے بھی ڈپلیکیٹ نائیکوپ کا حصول مشکل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر مثنیٰ نائیکوپ جاری کر دیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے عمران خان کے صاحبزادوں نے اپنی پھوپھی علیمہ خان کو نائیکوپ گمشدگی کا چکر دے دیا ہے۔ ادھر عمران خان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے بیٹے صرف ان سے ملاقات کے لیے پاکستان آئیں گے۔ عمران خان کی رہائی کی تحریک میں وہ شامل نہیں ہوں گے۔
میرا خیال ہے پی ٹی آئی کے جوشیلے ورکرز کے منہ پر اس سے زیادہ زناٹے دار تھپڑ نہیں مارا جا سکتا۔ بات صرف محسوس کرنے کی ہے۔
دوسروں کے بچوں کو اپنی تحریکوں کا ایندھن بنا کر بے دریغ موت کے منہ میں اور جیل کی کوٹھڑی میں دھکیلنے والا لیڈر اپنی رہائی کے لیے ایک مرتبہ پھر قوم کے بچوں کو پکار رہا ہے مگر اپنے حقیقی بچوں کو اس سے دور رکھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوغلی پالیسی نے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں ڈینٹ ڈال دیئے ہیں۔ جس تحریک نے 5 اگست کو عروج پر پہنچنا تھا وہ 4اگست تک شروع بھی نہ ہو سکی۔ اب چیئرمین بیرسٹر گوہر کا تازہ بیان سامنے آیا ہے کہ تحریک کا آغاز ہی 5اگست سے ہو گا لیکن یہ کیسی تحریک ہے جس کی کہیں پلاننگ ہوئی نہ ورکرز کو ہدایات دی گئی ہیں اور نہ کوئی لیڈر ہو گا۔ بس یہ کہہ دیا گیا ہے کہ جہاں جو لیڈرشپ ہو گی وہی قیادت کرے گی۔ بیرسٹر گوہر بونیر میں احتجاج کی قیادت کریں گے۔ اس احتجاجی تحریک کی ناکامی کی تمام تر ذمہ داری بانی پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے آپ کو اوور ایسٹیمیٹ کر لیا تھا۔ اب یہی امید ہے کہ 14اگست کو جشنِ آزادی کے جلسوں اور جلوسوں میں ڈیڑھ دو درجن پی ٹی آئی کے جھنڈے لہرا کر ان تقریبات کو اپنے حق میں کیش کرانے کی کوشش کی جائے گی۔





