پاکستان۔ امریکہ تجارتی معاہدہ کے ثمرات و چیلنجز

پاکستان۔ امریکہ تجارتی معاہدہ کے ثمرات و چیلنجز
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والا نئے تجارتی معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت اور سرد مہری کی برف پگھلنے کی ازسر نو ابتدا ہوئی۔ یہ معاہدہ توانائی، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اور کرپٹو کرنسی جیسے شعبوں میں تعاون کی تاریخی یاد داشت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، جو پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے اور اسے عالمی مارکیٹ میں ایک مضبوط مقام دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا، جبکہ پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسے ملکی معیشت کے لیے ایک انقلابی موڑ کہا۔ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی اس ملاقات میں امریکی سیکریٹری کامرس ہاورڈ لٹنک اور امریکی تجارتی نمائندہ جیمیسن گریر نے پاکستانی وفد کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو حتمی شکل دی، یہ معاہدہ جو کئی ماہ کی محنت اور مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار اس کے نفاذ، علاقائی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت، اور دونوں ممالک کے مشترکہ عزم پر ہے۔
یہ معاہدہ ایک ایسے نازک موڑ پر سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنی معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور درآمدات پر بھاری انحصار نے ملکی معیشت کو شدید دبا میں ڈال رکھا ہے۔ دوسری جانب، امریکہ عالمی سطح پر اپنی اقتصادی اور اسٹریٹجک پوزیشن خاص طور پر ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے میں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ پاکستان، جو امریکہ کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے، اس معاہدے کے ذریعے اپنی معیشت کو استحکام دینے اور نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ اپریل 2025 ء میں پاکستانی برآمدات پر مجوزہ29فیصد ٹیرف کو 90دن کے لیے معطل کرنے کا فیصلہ اس معاہدے کی تیاری کا ایک اہم مرحلہ تھا۔ اس فیصلے نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کیا۔
اس معاہدے کا ایک اہم پہلو پاکستانی مصنوعات پر امریکی ٹیرف میں کمی ہے، جو پاکستان کی برآمدات کو فروغ دینے اور اس کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اس سے پاکستانی ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، اور آئی ٹی خدمات کو امریکی مارکیٹ تک بہتر رسائی ملے گی۔ توانائی کا شعبہ اس معاہدے کا ایک مرکزی ستون ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے بڑے پیمانے پر درآمد شدہ تیل پر انحصار کرتا ہے، جو سال 30 جون 2025ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں 11.3بلین ڈالر یعنی کل درآمدات کا تقریباً پانچواں حصہ کی مالیت رکھتا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان اپنے تیل کے ذخائر کی ترقی کے لیے امریکی تعاون حاصل کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں ممالک مل کر پاکستان کے ’’ بڑے پیمانے پر تیل کے ذخائر‘‘ کی ترقی کریں گے۔ امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے 2015ء کے ایک مطالعے کے مطابق، پاکستان کے پاس 9.1بلین بیرل شیل آئل کے تکنیکی طور پر قابل حصول وسائل موجود ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے علاقوں میں تیل کی تلاش کے لیے ایک امریکی تیل کمپنی کا انتخاب کیا جائے گا، جو اس منصوبے کی قیادت کرے گی۔ یہ اقدام پاکستان کی درآمدات پر انحصار کو کم کرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن اس شعبے میں پیش رفت کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور بلوچستان جیسے شورش زدہ علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ناگزیر ہے۔ پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی کے لیے امریکی وسائل اور ٹیکنالوجی ناگزیر ہیں۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جو پاکستان کی توانائی کی خود مختاری کے خواب کو حقیقت کے قریب لا سکتی ہے۔
کان کنی اور معدنیات کا شعبہ اس معاہدے کا ایک اور اہم حصہ ہے۔ پاکستان کے پاس 6ٹریلین ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر ہیں، جن میں تانبا، سونا، لیتھیم، اور دیگر اہم معدنیات شامل ہیں۔ یہ معاہدہ امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے کان کنی کے شعبی میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرے گا۔ بلوچستان میں واقع ریکوڈیک منصوبہ، جو پہلے ہی کینیڈا کی بیرک گولڈ کے ساتھ شراکت میں ہے، اس معاہدے کی کامیابی کی راہ میں کئی چیلنجز ہیں۔ توانائی کے شعبے میں، تیل کی تلاش کے لیے ایک امریکی کمپنی کا انتخاب جاری ہے، لیکن اس عمل میں وقت لگے گا۔ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال ایک بڑی رکاوٹ ہے، جہاں شورش نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو متاثر کیا ہے۔ کان کنی کے شعبے میں، ریکوڈیک جیسے منصوبوں کے لیے فنانسنگ کی ضرورت ہے، لیکن سیکیورٹی اور ریگولیٹری ہم آہنگی کے مسائل اس کی رفتار کو سست کر سکتے ہیں، تاہم وسائل کے حصول کے لئے مقامی آبادی کو اعتماد میں لینا اور تحفظات دور کرنا بھی اہم و ناگزیر ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں، ٹیرف میں کمی سے برآمدات کو فائدہ ہوگا، لیکن انفراسٹرکچر کی ترقی اور ہنر مند افرادی قوت کی دستیابی اہم ہے۔ کرپٹو کرنسی کے شعبے میں، ریگولیٹری فریم ورک کی ترقی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اور عالمی مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال اس کی ترقی کو متاثر کر سکتی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ پاکستان کی معیشت کا ایک تیزی سے ابھرتا ہوا ستون ہے، اور اس معاہدے کے تحت اسے امریکی مارکیٹ میں ترجیحی رسائی حاصل ہوگی۔ پاکستان کی جوان اور ٹیکنالوجی سے واقف افرادی قوت اس شعبے کی ترقی کے لیے ایک بڑا اثاثہ ہے۔ کرپٹو کرنسی کا شعبہ اس معاہدے کا ایک جدید اور دلچسپ پہلو ہے۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا بازار تیزی سے ترقی کر رہا ہے، جہاں 20سے 27ملین صارفین ہیں اور 2025ء میں متوقع آمدنی 1.6بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے اپنے ریگولیٹری فریم ورک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان ڈیجیٹل ایسیٹ اتھارٹی قائم کی ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ کے خاندان سے منسلک کمپنی ورلڈ لبرٹی فنانشل کے ساتھ شراکت داری بلاک چین ٹولز کی ترقی اور صنعتی رہنمائی کے لیے کی گئی ہے۔ یہ تعاون پاکستان کو ویب 3انوویشن کے لیے ایک علاقائی مرکز کے طور پر پوزیشن دینے کی کوشش ہے۔ امریکی ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، جو اس شعبے کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔ لیکن کرپٹو کرنسی کی قیمتوں میں اتار ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی سفارتی کوششوں نے اس معاہدے کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کیا، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشی اور سفارتی کوششیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کس طرح ایک ملک کی ترقی کو نئی سمت دے سکتی ہیں۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی سے بھی جڑا ہوا ہے جس میں مفادات کا ٹکرائو سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ امریکہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان سے سفارتی و تجارتی تعلقات میں کتنا مخلص ہے اور پاکستان ۔ امریکہ تعلقات کسی ایسے منصوبے سے تو نہیں جڑا ، جو پاکستان کے لئے امتحان کا باعث بنے۔





