Column

شاہراہ بابوسر اور شاہراہ قراقرم پر پھنسے سیاح

شاہراہ بابوسر اور شاہراہ قراقرم پر پھنسے سیاح
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کے شمالی علاقہ جات، خصوصاً گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی بلند و بالا وادیاں، دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے جنت نظیر مقام سمجھے جاتے ہیں۔ ان وادیوں تک رسائی کے لیے دو اہم شاہراہیں شاہراہ قراقرم اور شاہراہ ناران-بابوسر کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ شاہراہ قراقرم 1978ء میں مکمل ہوئی تھی اور اسے چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی و سفارتی روابط کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ بابوسر ٹاپ، جو 13ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ہے، ناران اور چلاس کے درمیان ایک انتہائی حسین مگر موسمی خطہ ہے، جہاں ہر سال بارشوں اور برفباری کے باعث کئی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
جولائی 2025میں غیر متوقع بارشوں اور کلاڈ برسٹ کے نتیجے میں دیامر، چلاس اور بابوسر کے علاقوں میں شدید سیلابی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں متعدد سیاح سیلابی ریلے میں بہہ گئے، شاہراہ قراقرم اور بابوسر ٹاپ پر ٹریفک معطل ہو گئی اور مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہزاروں مسافر پھنس گئے۔
ایسے وقت میں پاک فوج، گلگت بلتستان اسکائوٹس اور این ایچ اے کی فوری اور ہمہ گیر مداخلت نے ایک بڑے انسانی المیے کو روک دیا۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
پاک فوج نے سیاحوں اور مقامی آبادی کی بحالی و امداد کے لیے جو اقدامات کیے، ان میں ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کے ذریعے محصور افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا۔ راشن، پکے پکوان اور طبی امداد کی فوری ترسیل۔ دیوسائی، اسکردو روڈ، جھلکھڈ اور پسو سمیت مختلف مقامات پر لینڈسلائیڈ کلیئر کرنا اور مواصلاتی بحالی کے لیے بھاری مشینری کی مدد سے سڑکیں کھولنا جیسے عوام شامل ہیں۔
گلگگت بلتستان میں پاک فوج کا کردار نہ صرف ایک نجات دہندہ کے طور پر سامنے آیا بلکہ ان کا فوری ردعمل ایک موثر ریاستی مشینری کی علامت کے طور پر ابھرا۔ پاک فوج اور این ایچ اے کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔
گلگت بلتستان جیسے حساس علاقوں میں کلائوڈ برسٹ اور سیلاب جیسی آفات کے خطرات ہر سال موجود ہوتے ہیں، لیکن کوئی موثر ابتدائی انتباہی نظام (Early Warning System)نظر نہیں آیا۔ سیاحتی نظام کی کمزوری حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بابوسر ٹاپ جیسے علاقوں میں موسم کی اچانک تبدیلی کے خطرے کے باوجود، سیاحوں کو جانے کی اجازت دینا انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی کا ثبوت ہے۔ شاہراہ قراقرم اور بابوسر جیسے اہم راستے، ہر سال لینڈسلائیڈ سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ٹھوس اور پائیدار انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی ریاستی پالیسی کی خامی ظاہر کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی موسمیاتی شدت، کلائوڈ برسٹ اور اچانک سیلاب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک قومی سیکیورٹی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ مگر حکومتی سطح پر ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
ریسکیو آپریشن میں پاک فوج اور دیگر اداروں کی فرض شناسی قابلِ فخر ہے۔ مگر ہر سال ایسے حادثات کا تسلسل پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں۔ سیاحتی پالیسی میں موسم کی شدت کے دوران رسائی پر پابندی لگائی جائے۔ مستقل انفراسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے جو لینڈ سلائیڈ، بارشوں اور سیلاب کو برداشت کر سکے۔ ماحولیاتی ایمرجنسی کا قومی سطح پر اعلان اور Climate Resilience پروگرامز کا آغاز کیا جائے اور مقامی کمیونٹی کو ٹریننگ دی جائے تاکہ وہ ابتدائی سطح پر امدادی کارروائیوں کا حصہ بن سکیں۔
شاہراہ بابوسر اور قراقرم پر پیش آنے والا حالیہ اس سانحے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قدرتی آفات سے بچا صرف ریسکیو آپریشن سے ممکن نہیں، بلکہ پیشگی منصوبہ بندی اور پائیدار ترقیاتی ماڈلز ہی حقیقی حل ہیں۔ پاک فوج کی بروقت کارروائیاں یقیناً قابلِ ستائش ہیں، مگر یہ وقتی ریلیف ہے۔ ریاست کو اب مستقل حل کی جانب بڑھنا ہوگا ، ورنہ ہر سال سیاحوں اور مقامی آبادی کو ایسے ہی حادثات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button