امریکی صدر کا جنوبی ایشیائی ممالک کے نئے ٹیرف کا اعلان اس کے مضمرات

امریکی صدر کا جنوبی ایشیائی ممالک کے نئے ٹیرف کا اعلان اس کے مضمرات
تحریر : شکیل سلاوٹ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنوبی ایشیائی ممالک کیلئے نئے تجارتی ضوابط (Trade Framework)اور ٹیرف پالیسی کا اعلان عالمی سفارتی اور تجارتی حلقوں میں خاصی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس فیصلے کے اثرات نہ صرف جنوبی ایشیا کی معیشتوں پر مرتب ہوں گے بلکہ عالمی تجارتی نظام میں بھی ایک نئی صف بندی کا آغاز متوقع ہے۔
وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیائی اقتصادی فریم ورک 2025کے تحت بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے نئی شرائط متعین کی ہیں۔ اس میں بعض اشیاء پر ٹیرف میں نرمی کی گئی ہے جبکہ کچھ صنعتی اور ٹیکنالوجی مصنوعات پر نئے محصولات نافذ کیے گئے ہیں۔
ٹیکسٹائل اور زراعتی برآمدات پر ٹیرف میں جزوی کمی۔
الیکٹرانکس، فارماسیوٹیکل اور ٹیکنالوجی مصنوعات پر سخت نگرانی اور محصول میں اضافہ۔
ماحولیاتی اور لیبر اسٹینڈرڈز کی کڑی شرائط۔
امریکی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کا ازسرنو جائزہ۔
پاکستان کے لیے یہ پالیسی دونوں پہلو رکھتی ہے۔ ایک طرف ٹیکسٹائل اور زرعی اشیا کی برآمدات کے لیے مارکیٹ کی رسائی میں آسانی دی گئی ہے، جو پاکستانی معیشت کے لیے مثبت قدم ہے۔ دوسری طرف، ٹیکنالوجی، آئی ٹی سروسز اور فارما مصنوعات کے شعبے کو نئی تحدیدات کا سامنا ہوگا۔
پاکستانی ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر حکومت فوری ردعمل دے کر اپنی برآمدی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرے ، تو یہ نیا فریم ورک فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، بصورت دیگر نقصان بھی ممکن ہے۔
بھارت کو امریکہ کے ساتھ پہلے ہی تجارتی اور دفاعی تعلقات میں فوقیت حاصل ہے۔ نئے فریم ورک میں بھارت کو ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعتوں میں ترجیح دی گئی ہے، جس سے امریکی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کو وسعت دے سکیں گی۔ اس کا ایک اثر خطے میں طاقت کا توازن بھی بدل سکتا ہے۔
یہ اقدام چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی امریکی کوشش کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کو معاشی طور پر امریکہ کے قریب لانے کا یہ عمل ایک طرح کی اقتصادی سفارت کاری ہے۔ تاہم، اس سے امریکہ-چین تعلقات میں مزید تنائو آنے کا خدشہ ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین اس فیصلے کو ’’ نرم طاقت‘‘ (Soft Power)کے استعمال کی ایک نئی شکل قرار دے رہے ہیں۔ تجارتی شرائط کے ذریعے جغرافیائی سیاست کو متاثر کرنے کی یہ کوشش آنے والے برسوں میں عالمی سیاست کی جہتوں کو تبدیل کر سکتی ہے۔
امریکی صدر کا جنوبی ایشیا کے لیے نیا ٹریف فریم ورک ایک اہم موڑ ہے۔ یہ صرف ایک اقتصادی پالیسی نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک پیغام بھی ہے۔ پاکستان سمیت تمام جنوبی ایشیائی ممالک کو اب اس پالیسی کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اپنی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دینا ہو گا تاکہ وہ ممکنہ فوائد حاصل کر سکیں اور نقصانات سے بچ سکیں۔
جنوبی ایشیائی ممالک اگر آپس میں تجارت کریں تو معاشی ترقی ممکن ہے۔
جنوبی ایشیا دنیا کے اُن خطوں میں سی ایک ہے جہاں آبادی کثیر، قدرتی وسائل وافر، اور انسانی صلاحیت بے پناہ ہے۔ اس کے باوجود یہ خطہ آج بھی غربت، بے روزگاری اور پسماندگی کا شکار ہے۔ اس صورت حال کی بڑی وجہ ایک دوسرے سے دوری، بداعتمادی اور باہمی اختلافات ہیں جنہوں نے خطے کی ترقی کے امکانات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر جنوبی ایشیائی ممالک اپنے تاریخی جھگڑوں اور سیاسی تنازعات کو پس پشت ڈال کر تجارت کو فروغ دیں، تو یہ پورا خطہ خوشحالی کی نئی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔جنوبی ایشیائی ممالک، خصوصاً پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان اور مالدیپ، دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 20فیصد ہیں۔ یہاں ایک بڑی صارف منڈی موجود ہے، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ممالک کے درمیان علاقائی تجارت کا حصہ صرف 5فیصد سے بھی کم ہے۔ جب کہ یورپی یونین میں یہ شرح 60فیصد اور آسیان ممالک میں 25فیصد کے قریب ہے۔
یہ اعدادوشمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کا پوٹینشل کتنا وسیع ہے۔ اگر صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کھول دی جائے تو سالانہ اربوں ڈالر کا فائدہ دونوں ممالک کو ہو سکتا ہے۔ کم لاگت کی مصنوعات، تیز تر ترسیل اور قیمتوں میں کمی جیسے بے شمار فوائد ممکن ہیں۔
باہمی تجارت سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں بلکہ برآمدات میں اضافے کے ساتھ صنعتی سرگرمیوں کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs)کو نئی منڈیاں میسر آتی ہیں، اور زراعت، ٹیکسٹائل، ادویات، تعمیرات اور ٹیکنالوجی جیسے شعبے براہ راست مستفید ہوتے ہیں۔
غربت، جو اس خطے کا سب سے بڑا چیلنج ہے، وہ تجارت اور معاشی ترقی کے ذریعے ختم کی جا سکتی ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ جیسے ادارے بارہا اس بات کی توثیق کر چکے ہیں کہ علاقائی تعاون ہی جنوبی ایشیا کو معاشی خود کفالت کی جانب لے جا سکتا ہے۔
اگرچہ امکانات روشن ہیں، مگر عملی طور پر کئی رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازعہ، سرحدی جھڑپیں، اور سفارتی تنائو سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسی طرح نیپال اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات، بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان روہنگیا مسئلہ، اور سری لنکا میں نسلی اختلافات جیسے مسائل بھی خطے کے استحکام کو متاثر کرتے ہیں۔
سارک (SAARC)جیسا ادارہ جو خطے کی اقتصادی ہم آہنگی کے لیے قائم کیا گیا تھا، وہ بھی سیاسی کشیدگی کی نذر ہو چکا ہے۔ کئی سالوں سے سارک کا کوئی باضابطہ اجلاس نہیں ہو سکا، جو صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بند گلی سے نکلنے کے لیے سیاسی قیادت کو وسعتِ قلبی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ویزا پالیسیز میں نرمی، تجارتی ٹیکسوں میں کمی، کسٹمز کو آسان بنانا، اور ریلوے و سڑک کے مشترکہ منصوبے اس خطے کو باہم جوڑ سکتے ہیں۔
ثقافتی و تعلیمی تبادلے، میڈیا تعاون، کھیلوں کے مقابلے اور کاروباری کانفرنسز کے ذریعے عوامی رابطے بڑھائے جائیں۔ جب عوامی سطح پر دوستی بڑھے گی تو سیاسی قیادت پر دبائو بھی آئے گا کہ وہ مفاہمت کی راہ اختیار کریں۔
دنیا اب بلاکوں، خطوں اور معاہدوں کی دنیا بن چکی ہے۔ اگر جنوبی ایشیائی ممالک آپس میں تجارت اور تعاون کی راہ اختیار کریں تو نہ صرف غربت، بے روزگاری اور بدامنی کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ یہ خطہ عالمی معیشت میں ایک طاقتور حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تلخیوں، دشمنیوں اور نفرتوں کو دفن کر کے معاشی استحکام کے لیے ایک نئی راہ نکالی جائے۔ ایک ایسی راہ جو جنوبی ایشیا کے عوام کو خوشحال، محفوظ اور ترقی یافتہ بنائے۔
شکیل سلاوٹ







