امریکہ نے ہمیں تیل لگا دیا ہے

امریکہ نے ہمیں تیل لگا دیا ہے
تحریر : سیدہ عنبرین
امریکہ کی طرف سے پاکستان میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہونے اور امریکہ کی ایک کمپنی کی طرف سے یہ تیل نکالنے کی خبر سامنے آئی تو ہر طرف خوشی کے شادیانے بجنے لگے، سرکاری سر پرستی میں بجنے والے ڈھول کی آواز نمایاں تھی، بعض ڈھولچی تو محو رقص نظر آئے۔ سوچا اس خوشی میں شریک نہ ہوئے تو دہشتگرد کہلائے جائیں گے، ایسا نہ ہوا تو کم از کم غداروں کی فہرست میں تو نام ضرور آئیگا، اب تو ہر کام کرنے سے قبل سی سی ڈی کی طرف بھی دیکھنا پڑتا ہے اسی طرح ’’ پیرا‘‘ کی جانب بھی نظر اٹھ جاتی ہے، کیا خبر کس کو کون سی بات پسند نہ آئے اور فل فرائی یا ہاف فرائی کے آرڈر آ جائیں۔ ملکی سطح پر منائی جانے والی خوشی میں شریک ہونے کیلئے سب سے پہلے قریبی حلوائی کا تمام سٹاک خرید کر بجلی اور گیس کے بلوں سے ہلکان افراد کا منہ میٹھا کرایا تاکہ انہیں کچھ تقویت ملے، ان کے اوسان بحال ہوں، پھر ملازم سے کہا گھر کے تمام افراد کے تمام کپڑے اٹھا کر مستحق افراد میں بانٹ دئیے جائیں، ملک کے قرضے اتارنے کیلئے اپنے کپڑے بیچنے کا اعلان ایک موقع پر جناب وزیر اعظم نے کیا تھا، لہذا سوچا خوشی کے موقع پر اپنے کپڑے تقسیم کر کے ان کے نقش قدم پر چلنے کا موقع نہیں گنوانا چاہیے، اس نیک کام سے فارغ ہو کر گھر کا تمام فرنیچر، برتن بانٹ دئیے، یہ سب اس لئے کرنا ضروری تھا کہ تیل سے تقسیم ہونے والی خوشحالی نے سیلاب کے پانی کی طرح ہر گھر میں گھس جانا تھا، خوشحالی پانی کی مہیب لہروں کی طرح اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو روندتی ہوئی آتی اور گھر میں پرانی چیزوں کے انبار دیکھ کر کسی اور گھر کا رخ کر لیتی، یہ کسی طور منظور نہ تھا، پس گھر خالی کر کے خوشحالی کا انتظار شروع کر دیا، احتیاطً بازار سے پلاسٹک کے نئے نیلے ڈرم منگوا لیے کیونکہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں پٹرول اتنا زیادہ ہوگا کہ ہم اسے بھارت کو برآمد کر سکیں گے، بس یہی سوچ کر ڈرم منگوا لے کہ پٹرول ذخیرہ کریں گے اور بھارت کو برآمد کیا کریںگے، ان تمام کاموں سے فارغ ہو کر ٹی وی کھول کر بیٹھ گئے کہ اتنی بڑی کامیابی کا اعلان تو قوم سے خطاب میں کیا جاسکتا ہے، رات بیت گئی اگلا دن بھی گزر گیا، سوچا شاید تقریر لکھی جا رہی ہے۔ اب اس کی ایڈیٹنگ ہو رہی ہے، دن بیت گیا، قوم سے خطاب سامنے نہ آیا، حالانکہ اس سے قبل جب بھی لوہے، تیل یا تانبے کے ذخائر ملے خطابی شخصیت ہاتھ میں تابنے، لوہے کا ڈنڈا یا تیل کی بوتل لیکر میڈیا پر نمودار ہوتی رہی ہے اور قوم کو خوشیوں میں شریک کرتی رہی ہے، مگر اس مرتبہ شاید قوم کے صبر کا امتحان لیا جا رہا تھا۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ تیل نکلنے کے بعد کیا ہوگا، کہ امریکی صدر کے حضور پیش ڈپٹی وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر اعلان سامنے آگیا کہ پاکستان اور اہل پاکستان اس وقت امریکی تیل سے منہ میٹھا کریں، اس سے مالش کریں، اسے سر میں لگائیں، بالوں کو لمبا اور گھنا کریں ، منہ پر ملیں اور رنگ گورا کریں، صبح شام دو ٹیبل سپون بعد از طعام استعمال کریں اور چھوٹے قد کو بڑا کریں، علاوہ ازیں بے اولاد خواتین اسے حسب منشا استعمال کریں اور اولاد نرینہ حاصل کریں، جبکہ اسے قوت باہ کیلئے بھی موثر قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اب امریکی درآمدی تیل میں ہے، پاکستان میں تیل کی تلاش شروع کرنے والی کمپنی کو کچھ وقت دینا ہو گا، امریکی کمپنیوں سے زیادہ دیانتدار اور مخلص کمپنیاں دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں، کیونکہ ان کی بنیادی ٹریننگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماہرین معیشت نے کی تھی، اب وہ دنیا کو تیل دے رہی ہیں اور تیل لگا رہی ہیں، ہماری باری آچکی ہے، ہمارے ملک سے تیل نکالنے کی بجائے ہمارا تیل نکالا جائیگا، پھر ہمیں تیل لگایا جائیگا، تیل لگانے کے بعد اصل کام شروع ہوگا، اس کام کا ذکر کیا کرنا ایک ہی تو کام ہے جو ہماری پہچان ہے، دنیا ہمیں اب اسی کام کے ایکسپرٹ کے طور پر جانتی ہے، وقتی طور پر ہماری مایہ ناز ایئر فورس نے ہمیں بچا لیا، ورنہ بھارت تو ہمیں تیل لگا چکا تھا اور ہم راضی بالرضا نظر آئے۔ حکومت پاکستان کے دو وفاقی ذمہ داران نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا، اب مزید پریشان نہ ہوں جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے، اب معاملہ یہاں رک جائیگا۔ تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں تیل کے ذخائر اڑھائی کروڑ بیرل کے قریب کے ہیں، امریکی ذرائع نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق وہ اسے نو ارب بیرل بتاتے ہیں، ایسا ہوتا تو امریکی کمپنیاں پچاس برس قبل یہاں ڈیرے ڈال چکی ہوتیں، امریکہ بھارت کو ہمارے سر پر سوار نہ رکھتا، بلکہ عراق پر حملہ آور ہونے سے قبل پاکستان پر اپنا قبضہ مستحکم کرتا، پاکستان میں تیل اور گیس کے کنوئوں کی تعداد تین سو کے قریب ہے، سندھ میں سب سے زیادہ اڑھائی سو کے قریب، پنجاب میں فقط تیس، خیبر میں پندرہ اور بلوچستان میں پانچ رپورٹ ہوئے ہیں، درجنوں کنویں ایسے ہیں جہاں سے مکمل تیل نکالا جا چکا ہے یہ اب خشک ہو چکے ہیں، تیل کے بڑے ذخائر 2020ء کے بعد صوبہ خیبر میں دریافت ہوئے، امریکی اور برطانوی کمپنیاں سمندر میں بھی تیل تلاش کر تی رہیں، مختلف حکومتوں میں سمندر میں تیل کی بڑی مقدار دریافت ہونے کی خوشخبری سنائی گئی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کمپنی نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور غائب ہو گئی، حتٰی کہ حکومت پاکستان کی طرف سے متعدد مرتبہ رابطوں کا بھی کوئی جواب نہ دیا گیا، پاکستان میں بیوروکریسی اور سیاسی شخصیات کے رویوں کے سبب بھی کمپنیوں کو مسائل کا سامنا رہتا ہے، پاکستان اپنی ضروریات کا صرف پندرہ فیصد خود پیدا کرتا ہے، اس کا انحصار درآمدی پٹرول پر ہے۔پاکستان، سعودی عرب کے علاوہ کبھی کبھار کسی اور خلیجی ملک سے تیل درآمد کر لیتا ہے، جبکہ اسے روس اور ایران سے پٹرول خریدنے کی اجازت نہیں یہ پابندیاں امریکہ نے لگا رکھی ہیں، ہم ان زنجیروں کی توڑنے کی ہمت اور جرات نہیں رکھتے، کہنے کو ہم ایٹمی ملک ہیں جو خوددار اور آزاد ملک ہے، یہ آزادی اور خود مختاری فقط کاغذی ہے، جو ملک اپنا بجٹ خود نہیں بنا سکتا اور آئی ایم ایف کا تابع ہے اس کی اوقات کیا ہے یہ کوئی راز نہیں۔ اشرافیہ کو سہولتیں بہم پہنچانی ہوں تو یہ یک جنبش قلم سب کچھ ہو جاتا ہے، چینی ایکسپورٹ بھی ہو جاتی ہے، اب امپورٹ کے معاملے پر بھی آئی ایم ایف کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، معاملہ عام آدمی کا ہو تو اس کے لئے سب پابندیاں ہوتی ہیں۔ امریکی تیل کا انتظار کیجئے اور اپنی آخرت سنواریئے، امریکہ نے ہمیں تیل لگا دیا ہے، اب اقتصادی طور پر ہمارا تل تلیا شروع ہونے کو ہے ۔







