Column

سیاست، استحکام اور منظرنامے کے پردے

سیاست، استحکام اور منظرنامے کے پردے
تحریر : رانا اقبال حسن

ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے، تو وہ ہے: ’’ انتظامی استحکام، مگر سیاسی بے یقینی‘‘۔ بظاہر حالات میں بہتری کے آثار ہیں۔ مہنگائی کا دبائو کم ہوا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے، اور خارجہ محاذ پر پاکستان نے کئی اہم مواقع پر متوازن اور ذمہ دارانہ رویہ اپنایا ہے۔ مگر یہ سب کامیابیاں ایک ایسے بیانیے کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں جہاں اصل کریڈٹ سیاسی قیادت کی بجائے کسی اور کے سر باندھا جا رہا ہے۔
وزیراعظم اور ان کی کابینہ اگرچہ بظاہر ریاستی نظام کے مرکز میں موجود ہیں، مگر ان کی سیاسی ساکھ ایک کمزور دھاگے سے بندھی محسوس ہوتی ہے۔ عوامی سطح پر ان کی پالیسیوں کا کوئی واضح اثر دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ موجودہ حکومت کا قیام اور اس کی بقا ایک خاص ماحول اور سرپرستی کا نتیجہ ہے، جس کا اظہار خود حکومتی رویے میں بھی جھلکتا ہے۔
اس بیچ میں وہ ریاستی ادارے جو ماضی قریب تک تنقید کی زد میں تھے، اب اپنی حکمت عملی، سفارتی چالوں، اور قومی سلامتی کے میدان میں کارکردگی کے باعث ایک بار پھر عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ فیلڈ مارشل کا حالیہ دور امریکہ، ایران اسرائیل تنازعے پر متوازن ردِعمل، اور سرحدی کشیدگیوں کے درمیان مضبوط حکمت عملی نے ایک مرتبہ پھر یہ تاثر ابھارا ہے کہ ریاست کے کچھ ستون اب بھی مہارت اور ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف، سابق حکمران جماعت تحریکِ انصاف داخلی انتشار، عدالتی مقدمات اور بیانیاتی الجھائو کا شکار ہے۔ عمران خان کی ذاتی مقبولیت اپنی جگہ موجود ہے، مگر سیاسی میدان میں موجودگی، تنظیمی استحکام اور عوامی سطح پر متحرک رہنا ہی اصل طاقت ہوتا ہے اور یہی وہ عناصر ہیں جن کی اس وقت کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک فعال حزبِ اختلاف کے بغیر نظام کو چیلنج کرنے کی روایت کمزور پڑ چکی ہے، جس سے جمہوری توازن بھی متاثر ہوا ہے۔
وفاق میں حکومتی اتحاد، جس میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں، خود بھی اپنے وجود کے دفاع میں لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اب قومی سطح کی بجائے صرف سینیٹ کی تقریروں اور بیرونی دوروں تک محدود ہو چکی ہے، اور مسلم لیگ ن اپنے تجربے کے باوجود عوامی رابطے میں کمزور نظر آتی ہے۔ بظاہر یہ جماعتیں حکومت میں ہوتے ہوئے بھی سیاسی ساکھ بنانے میں ناکام رہی ہیں، اور یوں لگتا ہے جیسے وہ خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ایک سیاسی بوجھ بن چکی ہیں۔ تاہم پنجاب میں کچھ مختلف فضا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے انتظامی میدان میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ ان کا موازنہ سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے کیا جائے تو ان کی کارکردگی کئی حوالوں سے نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ حال ہی میں پولیس فورس CCDکو جو اختیارات دئیے گئے ہیں، اس کے بعد شہروں میں جرائم، خصوصاً ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک پر بدنما اور بدمعاشی پر مبنی کلچر پر جو لگام لگائی گئی، وہ بھی انتظامی کارکردگی کا مثبت پہلو ہے۔ مگر دوسری طرف یہی تضاد بھی دیکھنے میں آیا کہ سوشل میڈیا پر قانون نافذ کرنے والے اہلکار خود بھی اسی ’ شو آف‘ کلچر کا حصہ بنے، جس کے خلاف حکومت نے کارروائی کی تھی۔ پولیس افسروں اور بیوروکریٹس کی جانب سے گانوں پر چشمہ لگا کر ویڈیوز بنانا محض تفریح نہیں، ادارہ جاتی سنجیدگی کی عکاسی بھی کرتا ہے یا اس کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
معاشی سطح پر کسان طبقہ خاصی پریشانی کا شکار ہے۔ اجناس کی خریداری کا پرانا ریاستی نظام ختم ہونے سے کسان مارکیٹ کے رحم و کرم پر آ گیا ہے۔ اس پالیسی نے دیہی معیشت کو کمزور کیا ہے، جبکہ شہری علاقوں کو وقتی ریلیف ضرور ملا ہے، مگر ملک کا توازن تبھی برقرار رہ سکتا ہے جب دیہات کی ریڑھ کی ہڈی کو سہارا دیا جائے۔
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اس وقت ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف بظاہر استحکام ہے، اور دوسری طرف سیاسی خالی پن۔ اگر ہم حقیقی ترقی اور دیرپا استحکام چاہتے ہیں تو نہ صرف پارٹیوں سے بالا تر ہو کر سوچنا ہو گا، بلکہ نظام میں ایسے لوگ لانے ہوں گے جو عوامی امنگوں، سیاسی اخلاقیات اور زمینی حقیقتوں، تینوں سے ہم آہنگ ہوں۔

جواب دیں

Back to top button