بحران زدہ میڈیا اور پی ایف یو جے کی پلاٹینم جوبلی

بحران زدہ میڈیا اور پی ایف یو جے کی پلاٹینم جوبلی
تحریر : روشن لعل
کسی بھی ملک، علاقے یا ادارے کے بحران زدہ ہونے کی ایک نشانی، وہاں کے لوگوں کے روزگار کا غیر مستحکم اور غیر محفوظ ہونا بھی ہے۔ آج اگر ہم اپنے ملک کے میڈیا کو دیکھیں تو، صحافتی کارکنوں کا روزگار ان سرکاری اداروں کے ملازموں سے بھی زیادہ غیر مستحکم اور غیر محفوظ نظر آتا ہے جو ادارے عرصہ دراز سے کروڑوں اربوں روپے کے سالانہ خسارے کے باوجود چلائے جار ہے ہیں۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کے بحران میں مبتلا ہونے کا تاثر ہرگز بے بنیاد نہیں ہے۔ وطن عزیز میں میڈیا کے بحرانوں کا شکار ہونے سے متعلق ، زیر نظر کالم اس وقت لکھا جارہا ہے جب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ، کراچی میں اپنی پلاٹینم جوبلی منا رہی ہے۔
میڈیا کی بحرانی کیفیت کے متعلق اس لیے بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہاں آئے روز نہ صرف نشریاتی ادارے بند ہونے اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں بلکہ یہ خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں ادارے سے اتنے مزید صحافیوں کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ نشریاتی اداروں کا بند ہونا اور صحافیوں کی نوکریوں کا خاتمہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ گزشتہ کچھ برسوں سے جاری مسلسل عمل ہے۔ میڈیا کی دنیا میں اس قسم کے حالات پیدا ہونے سے قبل ایک ایسا نسبتاً بہتر دور بھی گزرا جس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ دور میڈیا کی آزادی کے نام پر نجی ٹی وی چینلوں کے قیام کے بعد شروع ہوا۔ یاد رہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں میڈیا ہمیشہ پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس جیسی جکڑ بندیوں کا شکار رہا وہاں نجی چینل قائم کرنے کی اجازت محض آزادی اظہار کے حق کے احترام میں نہیں دی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد خاص ریاستی مفادات کا تحفظ بھی تھا۔ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلوں کے قیام کی راہ اصل میں کارگل واقعہ کے بعد ہموار ہوئی۔ کارگل کی جنگ میں تو ہم نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق مظاہرہ کیا مگر میڈیا کے محاذ پر ہماری کارکردگی اس وجہ سے اطمینان بخش نہ رہی کیونکہ ہمارے ملک میں بھارت کی طرح سیٹلائٹ اور کیبل نیٹ ورک کے ذریعے وسیع پیمانے پر اپنے پروگرام نشر کرنے والے نجی ٹی وی چینل موجود نہیں تھے۔ بھارت میں نجی ٹی وی چینل کہنے کو تو آزاد تھے مگر کارگل کی جنگ اور اس کے بعد بھی انہوں نے یک زبان ہو کر ریاستی پراپیگنڈا نشر کیا۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا اس وقت پی ٹی وی کی نشریات کا دائرہ صرف پاکستان کی سرحدوں تک محدود تھا۔ پی ٹی وی ٹو کے نام سے قائم کیے گئے چینل کی نشریات سیٹلائٹ کے ذریعے دستیاب تو تھیں مگر ان کا معیار اس قدر پست تھا کہ بیرونی دنیا کیا انہیں پاکستان کے اندر بھی پذیرائی حاصل نہیں تھی۔ اس طرح کے حالات میں بھارتی ماڈل کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان میں بھی نجی ٹی وی چینلوں کو اپنی نشریات شروع کرنے کے لیے لائسنس جاری کئے گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ انڈیا کے نیوز چینلز پر خبریں کیونکہ ان کے اپنے ملک کے نقطہ نظر کے مطابق پیش کی جاتی تھیں اس لیے پاکستان میں انہیں ضرر رساں سمجھا گیا۔ اس ضرر رسانی کا تدارک کیونکہ پی ٹی وی ٹو یا پی ٹی وی کے نیوز سیکشن کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے اس مسئلہ کا یہ حل نکالاگیا کہ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے جہاں پاکستانیوں کو انڈین چینل دیکھنے کو مل رہے تھے وہاں ہماری ریاستی سوچ کا ابلاغ کرنے والے ایسے نیوز چینل بھی دستیاب ہوں جن پر یہ شبہ نہ ہو کہ انہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ میڈیا کی آزادی کے نام پر ایک خاص مصلحت کے تحت پاکستان میں نجی چینلوں کی نشریات کا آغاز ہوا۔ یہاں نجی شعبہ میں قائم ہونے والے ٹی وی چینلوں نے آزاد صحافت کا چولا پہن کر اپنی نشریات کے ذریعے جس حد تک بھی ممکن تھا ریاستی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے مال بنانا شروع کیا۔ ہمارے ریاستی اداروں نے بھی ابتدا میں کاروباری سرگرمی کے طور پر شروع کیے جانے والے نجی ٹی وی چینلوں کو ضروری تعاون فراہم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک تو چلتا رہا مگر بعد ازاں نجی چینلوں کی باہمی مسابقت نے انہیں اندرونی طور پر شتر بے مہار کی حد تک آزاد ہونے کی راہ پر گامزن کر دیا۔ ہمارے نام نہاد آزاد اور کاروباری میڈیا میں جو تبدیلی رونما ہوئی گو کہ اسے ان حلقوں نے بھی پسند نہ کیا جنہوں نے اپنی ضرورتوں کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر میں میڈیا کی حوصلہ افزائی کی تھی مگر ان کی پسند و ناپسند کو غنچہ دے کر میڈیا ہائوسز سنسنی خیزیوں کو وسیع سے وسیع تر کرتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوششیں کرنے میں جت گئے۔ الیکٹرانک میڈیا کے تبدیل ہوتے ہوئے مذکورہ کردارنے پرنٹ میڈیا کے روایتی کردار اور وجود کی تبدیلی پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے۔ میڈیا کے کردار کی مذکورہ تبدیلی کا خاکہ یہ ہے کہ تبدیل شدہ حالات میں اکثر میڈیا ہائوسز اور میڈیا پرسنز کی پہچان آزاد پالیسیاں نہیں بلکہ خاص سیاسی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ ان قربت بن گئی۔ مختلف میڈیا ہائوسز اور میڈیا پرسنز کے کردار کو چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے لیکن اس طرح کے کردار کا نتیجہ میڈیا انڈسٹری کے سکڑنے کی صورت میں برآمد ہوا۔ آج میڈیا انڈسٹری سکڑتے سکڑتے اس مقام تک جا پہنچی ہے کہ جس اخباری صحافت سے وابستہ صحافیوں نے1950ء پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد رکھی تھی اس اخباری صحافت کے متعلق یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس کے آخری سانسیں لینے کا دور شروع ہو چکا ہے۔ کسی کا طبعی موت مرنا یا اپنے پیچھے خوبصورت روایات چھوڑ کر رخصت ہونا اس طرح دکھ کا باعث نہیں بنتا جس طرح افسوسناک کسی کا فنا ہوجانا ہوتا ہے۔ ہمارا پرنٹ میڈیا جس بحران کا شکار ہے اس سے اس کے فنا ہونے کا امکان ظاہر ہوتا ہے۔جس وقت پرنٹ میڈیا فنا ہونے کے دہانے پر کھڑا نظر آرہا ہے اس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نمائندے کراچی میں اپنی تنظیم کی پلاٹینم جوبلی کا جشن منا رہے۔ پی ایف یو جے کی جو موجودہ لیڈرشپ اپنی تنظیم کا جشن مناتے ہوئے منہاج برنا ، حمید چھابرا اور نثار عثمانی جیسے لیڈروں کی ناقابل فراموش جدوجہد کو یاد کر رہی ہے ، اس موجودہ لیڈر شپ کے لیے یہ سوچنا ممکن نہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کی جدوجہد کے کھاتوں میں سے کسی کو کچھ قابل ذکر مواد مل سکے گا۔ جب رہنمائوں کی کارکردگی صحافی کارکنوں کے روزگار کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے اپنی لیڈرشپ قائم رکھنے تک محدود ہو جائے تو پھر جدوجہد کے کھاتوں کے اوراق کورے ہی رہ جاتے ہیں۔ سائنسی ترقی کی بدولت، خود کار مشینوں اور آئی ٹی کے شعبہ میں نت نئی ایجادوں کی وجہ سے جب ہر شعبہ میں افرادی قوت پر انحصار کم ہوا تو میڈیا انڈسٹری میں بھی اس چلن سے گریز ناممکن تھا ، مگر میڈیا انڈسٹری جن بحرانوں کا شکار ہے اس کی وجہ خود کار مشینوں سے زیادہ ان لوگوں کا رویہ ہے جنہوں نے اپنے شعبے کی حرمت کو اس طرح کم کیا کہ اب میڈیا کا ابلاغ لوگوں کو کھوج کی ہوئی خبروں سے زیادہ کسی کے تشکیل دیئے ہوئے آئیڈیاز لگنا شروع ہو گئے ہیں۔







