مسلسل تباہی کے عمل سے دوچار ملک

مسلسل تباہی کے عمل سے دوچار ملک
تحریر : شکیل امجد صادق
ذوالفقار علی بھٹو نے 2جنوری 1972ء کو منشور کے مطابق بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لانے کا آغاز کیا۔ پہلے فیز میں فولاد، سٹیل، ہیوی انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ موٹر ٹریکٹر ،بجلی کی پیداوار ،ترسیل اور تقسیم، گیس اور آئل ریفائنری کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ پہلے مرحلے کے بعد یکم جنوری 1974ء کو بینک اور مالیاتی اداروں کو قومیانے کے لیے پارلیمان میں منظوری دی گئی۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے فرمایا تھا: ’’ کل تک بینک چند پرائیویٹ گروپوں کے قبضے میں تھے جو اپنی مرضی سے صنعتوں کو سرمایہ فراہم کرتے تھے۔ آج ہم ان کی اجارہ داری کو ختم کر کے انھیں قومی ملکیت میں دیتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ حکومت نے صنعتی طاقت کو چند لٹیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کیا ہوا تھا‘‘۔۔۔ اس مرحلے میں 13بڑے بینکوں، 12انشورنس کمپنیوں، 2پٹرولیم کمپنیوں اور 10شپنگ کمپنیوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے یہ موقف پیش کیا کہ بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا مقصد سرمائے کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے سے روکنا اور چھوٹے درمیانے سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں 2000کے لگ بھگ کاٹن جننگ، رائس ہسکنگ اور فلور ملوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا۔ پاکستان کی معاشی تاریخ میں ایک پالیسی اقدام پروگرام تھا، جس نے پاکستان کی صنعت کاری کو بدترین بنا دیا اور تاجروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھایا۔ یہ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی نے متعارف کرایا، نافذ کیا اور عمل درآمد کروایا تاکہ پاکستان کی قومی معیشت کی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے سوشلسٹ معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی جا سکے۔
1950ء کی دہائی سے، ملک تیزی سے صنعتی ترقی سے گزرا اور ایشیا میں ایک صنعتی جنت بن گیا لیکن، جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا، مزدور ٹریڈ یونینز اور مزدور مزدور طبقے کے صنعتی کاروباری اولیگارچ طبقے کے ساتھ تعلقات بڑھتے بڑھتے کشیدہ ہوتے گئے، کام کے حالات کو بہتر بنانے اور ان صنعتی صنعتوں میں مزدوروں کے لیے صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ اس کی مثال بٹالہ انڈسٹری کی ہے۔
پاکستان کی صنعتی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جو اگرچہ آج کتابوں میں گم ہو چکے ہیں، مگر ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ انہی میں سے ایک روشن نام محمد لطیف کا ہے، جنہوں نے مشرقی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر بٹالہ میں 1907ء میں آنکھ کھولی۔ بچپن سے ہی علم اور محنت کے دلدادہ تھے، یہاں تک کہ 1930ء میں مکینیکل انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ محض دو سال بعد، 1932ء میں اپنے شہر کے نام سے منسوب ایک ادارے ’’ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (BECO)‘‘ کی بنیاد رکھی۔ کاروبار جم گیا، پہیہ چل پڑا، لیکن جب 1947ء میں تقسیم کا زخم لگا، تو محمد لطیف نے اپنا سب کچھ بھارت میں چھوڑ کر صرف پاکستان سے محبت کی خاطر لاہور کا رخ کیا۔ نہ مشینیں ساتھ آئیں، نہ وسائل، صرف حوصلہ، جذبہ اور ہنر ان کے پاس تھا۔ دسمبر 1947ء میں لاہور کے بادامی باغ سے نئے سفر کا آغاز ہوا۔ دن رات کی محنت کے بعد تین برسوں میں BECOنے انجینئرنگ کے کئی شعبوں میں قدم جما لیے۔ فیکٹری میں آٹھ مختلف شعبے قائم ہوئے، جن میں لوہے اور اسٹیل کی تیاری، ڈیزل انجنز، الیکٹرک موٹرز، کرینیں، پاور لومز، اور یہاں تک کہ سائیکلیں بھی تیار ہوتی تھیں1960ء اور 70ء کی دہائی میں BECOپاکستان کا فخر اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ادارہ بن چکا تھا۔ چین، جاپان، شام اور جرمنی جیسے ملکوں کے سربراہان اور ماہرین BECO کے دورے پر آتے، اور اپنے انجینئرز کو تربیت کے لیے یہاں بھیجتے۔ چین کے وزیر اعظم چو این لائی نے تو یہاں تک کہا کہ وہ چین میں اسی طرز پر ادارے قائم کریں گے اور کیے بھی۔ لیکن پھر وہ دن آیا جس نے پاکستان کی صنعت کو دہلا دیا۔ یکم جنوری 1972ء کو اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے معاشی اصلاحات کے نام پر BECOسمیت 31بڑے اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ برسوں کی محنت سے بنایا گیا ادارہ ایک حکم سے چھین لیا گیا، اور محمد لطیف کو ان کے اپنے ادارے سے الگ کر دیا گیا۔ ادارے کا نام بدل کر پاکستان انجینئرنگ کمپنی (PECO)رکھ دیا گیا، اور اس کی باگ ڈور ان لوگوں کو دی گئی جنہیں صنعت و حرفت کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو ادارہ کبھی منافع میں تھا، وہ ہر سال قومی خزانے پر بوجھ بننے لگا۔ 1972ء سے 1998ء تک ادارے کو 760ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق نے محمد لطیف کو فیکٹری واپس لینے کی پیشکش کی، لیکن وہ دل شکستہ ہو چکے تھے۔ وہ خاموشی سے پاکستان سے رخصت ہو کر جرمنی چلے گئے، جہاں انہوں نے باقی زندگی کاروبار سے دور رہ کر باغبانی میں گزار دی۔2004ء میں 97برس کی عمر میں وہ جرمنی ہی میں وفات پا گئے۔ وہی وطن، جس کی محبت میں انہوں نے سب کچھ قربان کیا، آخر میں ان کے دل کا زخم بن گیا۔ ایسے لوگ قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ہنر مندوں اور محبِ وطن سپوتوں کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ ہم نے ایک ہیرے کو کھو دیا، اور نجانے کتنے، اور قیمتی ہیرے ابھی بھی ضائع ہونے کو ہیں۔







