
تین اچھی ایک بری خبر
تحریر : سی ایم رضوان
اگست جشن آزادی کے حوالے سے پوری قوم کے لئے تاریخی طور پر خوش کن مہینہ ہوتا ہے۔ اس مہینے کے شروع میں قوم کو اقتصادیات کے حوالے سے بھی تین اچھی خبریں ملی ہیں جبکہ ایک وقتی طور پر خوش کن لیکن مستقبل میں بری نوعیت اختیار کر جانے والی خبر ہے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت نے اگلے 15دن کے لئے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کرتے ہوئے پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 7روپے 54پیسے کی کمی کر دی ہے جس کے بعد اب پٹرول کی قیمت 272روپے 15پیسے سے کم ہو کر 264روپے 61پیسے ہو گئی ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 1روپیہ 48پیسے کا اضافہ کر دیا گیا، اسی طرح ڈیزل کی فی لٹر قیمت 285روپے 83پیسے مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ قبل ازیں اوگرا نے ایل پی جی کی قیمت میں اگست کیلئے 17روپے 74پیسے فی کلو گرام کی کمی کا اعلان کیا تھا، اوگرا نے اگست کے لئے ایل پی جی کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے مطابق ایل پی جی کی قیمت 215روپے 36پیسے فی کلو گرام مقرر کی گئی ہے۔ ایک دیگر اچھی خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ملک میں جاری چینی بحران کے پیش نظر شوگر ملز کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے تمام ذخیرہ اپنے کنٹرول میں لے کر شوگر ملوں کے گوداموں میں موجود ذخائر سے چینی کی سپلائی کی مانیٹرنگ کے لئے ایف بی آر اہلکار تعینات کر دیئے ہیں۔ اس حوالے سے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ 18شوگر ملز کے مالکان اور دیگر عناصر کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے ہیں، چند دنوں میں ای سی ایل میں ڈالے گئے نام بھی جاری کریں گے۔ ان اقدامات کے بعد 19لاکھ میٹرک ٹن چینی شوگر ملز کی بجائے حکومتی کنٹرول میں چلی گئی ہے اور یہ فیصلہ چینی کی مصنوعی قلت اور قیمتیں مزید بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ تمام شوگر ملز میں چینی اسٹاک پر ایف بی آر کے ایجنٹس تعینات کر دیئے گئے ہیں جو شوگر ملز کے گوداموں سے چینی کی سپلائی کی مانیٹرنگ کریں گے جبکہ شوگر ملوں کے چینی اسٹاک پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لگا دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے واضح کیا ہے کہ ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں اور گرانڈ پر صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی کہ بعض حلقے بیان کر رہے ہیں۔ یعنی بقول ان کے خراب ہے مگر اتنی نہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال چینی کی پیداوار 68لاکھ میٹرک ٹن رہی جبکہ ملکی ضرورت 63لاکھ ٹن تھی۔ اوپننگ اسٹاک ملا کر مجموعی طور پر 13لاکھ ٹن اضافی چینی موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر برآمد کی اجازت دی گئی جب بین الاقوامی قیمت 750 ڈالر فی ٹن تھی۔ رانا تنویر نے کہا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وفاقی وزرا کے ساتھ چاروں صوبوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں اور چینی کی برآمد و درآمد کے فیصلے اسی پلیٹ فارم پر کیے جاتے ہیں۔ رانا تنویر نے کہا کہ چینی کی برآمد کے وقت مل مالکان کو صرف 2روپے مارجن دیا گیا، جب قیمت 136روپے تھی تو ایکس مل ریٹ 140اور ریٹیل قیمت 145مقرر کی گئی۔ اگرچہ مارجن کم تھا، لیکن حکومت نے عوامی مفاد میں محدود اضافے کی اجازت دی۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں چینی کی برآمد کے وقت بھی 5لاکھ میٹرک ٹن کا اضافی اسٹاک سنبھال کر رکھا گیا تاکہ مقامی منڈی میں قلت نہ ہو۔ واضح رہے کہ اس سے قبل گھی ملز کی پیداوار، سٹاک اور سپلائی کی مانیٹرنگ کے لئے گھی ملز میں بھی ایف بی آر اہلکار تعینات کئے جا چکے ہیں۔ تیسری اچھی خبر یہ ہے کہ ملک بھر میں تمام یوٹیلیٹی سٹور بند کرنے کے نوٹیفکیشن کے مطابق ملک بھر کے یوٹیلیٹی سٹورز پر یکم اگست 2025ء سے تمام خرید و فروخت بند ہوگی۔ اسلام آباد میں یوٹیلیٹی سٹورز کی بندش اور نجکاری پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قائم کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کے زیرِ صدارت منعقد ہوا تھا جس میں معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔ وزارتِ خزانہ کے اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ملازمین کے لئے منصفانہ اور مالی طور پر قابلِ عمل وی ایس ایس پر تفصیلی غور کیا گیا، کمیٹی نے یوٹیلیٹی سٹورز سے متعلق نج کاری کمیشن سے مشاورت کی سفارش کی۔ اجلاس میں یوٹیلیٹی سٹورز کے اثاثہ جات کی فروخت کے امکانات کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے قانونی و آپریشنل پہلوئوں کی جائزے کے لئے سب کمیٹی تشکیل دے دی۔ سب کمیٹی رواں ہفتے وی ایس ایس پلان پر رپورٹ پیش کرے گی، یوٹیلیٹی سٹورز کی بندش کی خبر اس حوالے سے تو خوش کن نہیں کہ اس میں کام کرنے والے ملازمین اب پریشان یا بیروزگار ہو جائیں گے لیکن یہ خبر اس حوالے سے اچھی ہے کہ ان یوٹیلیٹی سٹورز کے لئے ہر سال کروڑوں روپے کے اخراجات مختص کیے جاتے تھے مگر عوام کو ان سے وہ ریلیف یا مہنگائی کے حوالے سے وہ تحفظ نہیں ملتا تھا جو کہ ہر حکومت بیان کرتی تھی۔
چوتھی خبر جو کہ وقتی طور پر تو بڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے کہ پاک، امریکا تیل معاہدہ ہو گیا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے انداز میں اسے بڑا معاہدہ قرار دے دیا ہے لیکن دراصل یہ ایک زیادہ نقصان دہ منصوبے کا صرف چھوٹا سا حصہ ہے۔ اپنے مخصوص سنسنی خیز انداز میں گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں اعلان کیا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تیل کے بڑے ذخائر کی تلاش کے لئے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ بعد ازاں واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اس کی تصدیق وزیرِ خزانہ پاکستان نے بھی کر دی۔ متوقع طور پر دونوں فریقین نے ہی اس سیاہ سونے کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ٹرمپ نے صرف یہ بیان دیا کہ وہ ابھی یہ فیصلہ کرنے کے عمل میں ہیں کہ کون سی تیل کی کمپنی اس شراکت کی قیادت کرے گی۔ پاکستانی حکام کی خوشی کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی جانب سے مستقبل میں بھارت کو تیل کی فروخت کیے جانے کے امکان کا ایک طنزیہ تبصرہ بھی کیا۔ جب بنیادی مقصد ایک دوسرے کی تعریف کرنا ہے تو پھر اس عمل میں حقائق کی پروا بھلا کس کو ہے۔ اسی اثنا میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ پاکستانی برآمدات پر امریکی ٹیرف کم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کوئی عدد فراہم نہیں کیا گیا لیکن بھارت پر 25فیصد ٹیرف کی شرح کے نفاذ کے ٹرمپ کے اعلان کی وجہ سے ہمیں شاید جشن منانا چاہیے۔ ٹرمپ کے اس نوعیت کے طریقہ کار اب پرانے ہو چکے ہیں جو ڈرامائی اثر رکھتے ہیں اور ذاتی مفاد کو اصل مادے پر فوقیت دے رہے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان بھی اسی کشتی پر سوار ہو گئی ہے اور وہ مستقبل کے طویل مدتی سیاسی، اقتصادی یا ماحولیاتی مسائل کے بارے میں نہیں سوچ رہی۔ سب سے پہلے یہ سوال اہم ہے کہ کیا پاکستان کے پاس واقعی تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ سوئی اور گھوٹکی جیسے معروف مقامات جہاں سے پہلے ہی تیل و گیس حاصل کیا جا رہا ہے، ان کے علاوہ ابتدائی مطالعات میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور ان کے مضافات اور یہاں تک کہ مزید اندرون ملک بھی تیل اور گیس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ سمندر میں مکران ساحل کے جنوب میں مرے رج زون کہلائے جانے والے ایک علاقے میں تیل کے ذخائر موجود ہیں لیکن فی الوقت یہ محض اندازے ہیں اور ان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ٹرمپ معاہدہ نہ صرف یہ اشارہ کرتا ہے کہ یہ دیکھا جائے گا کہ پاکستان کی زمین کی سطح کے نیچے کیا ہے، اسے تلاش کیا جائے بلکہ اس کے لئے ڈرلنگ شروع کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان ہے۔ تعجب خیز بات نہیں کہ حکومت اور بڑی بین الاقوامی کمپنیز کی طاقتور شراکت کو سنگین مسائل کی پروا نہیں جیسے بلوچستان میں جاری تنازع، ساحلی ماحول کو پہنچنے والے نقصانات اور دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں پانی کی سپلائی کا سکڑنا وغیرہ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا موسمیاتی تبدیلی پر عدم یقین ان کے ہر موقع پر ’ ڈرل بے بی ڈرل‘ کے نعرے سے صاف واضح ہے لیکن حکومتِ پاکستان جو 2022ء کے تباہ کُن سیلاب کے بعد سے موسمیاتی تبدیلی پر یقین رکھتی ہے اور بارہا عالمی سیاسی اقتصادیات میں خود کو اس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک قرار دیتی ہے بالخصوص فوسل فیولز ترک کرنے کی تشہیر بھی کرتی ہے۔ تاہم یہ تضادات یہیں ختم نہیں ہوتے۔ گزشتہ چند ماہ میں ایک پاکستانی تبصرہ نگار نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کافی توانائی صرف کی تھی کہ ہمارے خطے اور پوری دنیا میں (باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
قابلیت کے اعتبار سے نئی سیاسی و اقتصادی صف بندی ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر مئی میں پاک بھارت فوجی تصادم میں ریاستی قوم پرست نعرہ بازی کے ساتھ ایک نئی جغرافیائی سیاسی تشکیل کے خواب بھی شامل تھے جس میں پاکستان امریکا، اسرائیل اور بھارت کے سہ فریقی اتحاد ( ٹرائیکا) کے خلاف واضح طور پر چین کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس تصور کا مزید پروپیگنڈا کرنے کا موقع اس وقت میسر آیا کہ جب صیہونی ریاست نے ایران کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا اور اس وقت پاکستانی حکام کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ثابت قدمی سے مغربی ٹرائیکا کی مخالفت میں کھڑا ہے لیکن امید افزا سوچ ایک طرف کر دیں تو اس بات پر یقین کرنی کی بہت کم وجوہات ہیں کہ پاکستان کا طاقتور، فوجی حمایت یافتہ طبقہ اصولوں کی واقعی پروا کرتا ہے، ایسے میں سامراج مخالفت کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ بہرحال ٹرمپ کے ساتھ تیل کا معاہدہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ مخلوط حکومت، اس سے پہلے کی حکومتوں کی طرح اب بھی پاکستان کی زمین اور وسائل کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو فروخت کرنا درست سمجھتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تیل کے معاہدے کا جشن منانا نہ صرف پہلے سے نظر انداز کیے جانے کا شکوہ کرتے لوگوں میں مزید محرومی کا احساس پیدا کرے گا بلکہ یہ میٹرو پولیٹن علاقوں میں کام کرنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود میں کسی بھی طرح کا کوئی حصہ نہیں ڈالے گا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کو عوام اور ماحولیات کی کوئی پروا نہیں۔ مزید یہ کہ معاہدے کی تفصیلات میں دیگر معدنیات اور کرپٹو کرنسی کے لئے مائننگ کی بھی بات کی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیل ایک بہت بڑے یا ممکنہ طور پر زیادہ نقصان دہ منصوبے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
سی ایم رضوان







