’’ ڈیٹا کی جنگ، ہم کیوں ہاریں؟

’’ ڈیٹا کی جنگ، ہم کیوں ہاریں؟‘‘
تحریر : ارشد مہدی جعفری
دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں کئی خوابوں کو حقیقت میں بدلا ہے، وہیں ایک ایسی حقیقت بھی سامنے آئی ہے جو نظر نہیں آتی، لیکن سب کچھ اسی کے گرد گھوم رہا ہے، ’’ ڈیٹا‘‘ ۔ یہی ڈیٹا جب ترتیب پاتا ہے، اس پر مشینیں سیکھنا شروع کرتی ہیں، جب انسان اپنی سوچ کو کمپیوٹر میں منتقل کرتا ہے، تب ایک نئی دنیا جنم لیتی ہے جسے ہم آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ صرف کوڈز، سوفٹ ویئرز یا ایپس کا کھیل نہیں ہے۔ درحقیقت یہ سب ایک اور خاموش کردار ’ بجلی‘ کے مرہونِ منت ہے۔
جیسے جیسے اے آئی ترقی کر رہی ہے، ویسے ویسے اس کی توانائی کی بھوک بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک بڑے اے آئی ماڈل کو تربیت دینے کے لیے اتنی زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے کہ بعض اوقات وہ سیکڑوں گھروں کے مشترکہ استعمال سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ عمل عموماً ڈیٹا سینٹرز میں انجام پاتا ہے، یعنی ایسے مقامات جہاں ہزاروں کمپیوٹرز بیک وقت چل رہے ہوتے ہیں، بغیر رکے، بغیر آرام کیے، دن رات ان مشینوں کی کارکردگی برقرار رکھنے کے لیے بجلی، کولنگ، نیٹ ورکنگ اور حفاظت کا ایک مستقل نظام چاہیے ہوتا ہے، اور یہی نظام ایک پورے ملک کے وسائل کو چُپ چاپ نگلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو ڈیجیٹل معیشت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ ڈیٹا سینٹرز کو صرف تکنیکی ضرورت نہیں بلکہ قومی سرمایہ کاری کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ چین نے اس میدان میں اتنی رفتار سے قدم بڑھایا ہے کہ وہ اب ہر سال درجنوں نئے ڈیٹا سینٹرز قائم کر رہا ہے، اور انہی سے تقریباً 69ارب ڈالر سالانہ آمدن حاصل کر رہا ہے۔ بھارت بھی اس دوڑ میں شامل ہے اور وہ 7.44ارب ڈالر سالانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ایران جیسا ملک، جس کی سرمایہ کاری کافی محدود ہے، وہ تیزی سے ڈیجیٹل اثاثہ مینجمنٹ میں قدم بڑھا رہا ہے۔ 2024ء کا ریونیو 5.9ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، اور GPUّبیسڈ AIڈیٹا سینٹر بھی زیرِ غور ہیں۔ خلیجی ممالک میں تو صورتِ حال اور بھی مختلف ہے۔ سعودی عرب، امارات، قطر جیسے ممالک میں 2024ء میں AIڈیٹا سینٹرز کی مارکیٹ تقریباً 17ارب ڈالر کی رہی، جس کے 2030ء تک سات گنا تک پہنچنے کا امکان ہے یہ وہ منافع ہے جو صرف اس ڈیجیٹل بھٹی سے پیدا ہو رہا ہے، جہاں ایندھن کے طور پر بجلی استعمال ہوتی ہے۔
لیکن ترقی کے اس سفر میں ایک عنصر ایسا ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اور وہ ہے ’’ توانائی کا خرچ‘‘۔ ایک اندازے کے مطابق 10میگاواٹ صلاحیت کے حامل ڈیٹا سینٹر پر چین میں سالانہ تیرہ ملین ڈالر سے زائد کی بجلی صرف ہوتی ہے، جبکہ بھارت میں یہی خرچ تقریباً گیارہ ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ البتہ ایران اور سعودی عرب کے بجلی کے خرچہ کا تخمینہ اس لیے میں یہاں لگانا مُناسب نہیں سمجھتا کہ ان ممالک کیلئے بجلی پیدا کرنا کافی آسان ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں جب اسی پیمانے پر تخمینہ لگایا گیا تو اندازہ ہوا کہ ہمارے یہاں ایسے ہی ایک ڈیٹا سینٹر کو صرف بجلی کی فراہمی پر سالانہ 0.19ارب ڈالر سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، پاکستان میں ایک ہی نوعیت کے منصوبے کی لاگت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے تقریباً دو گنا یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
یہی وہ بنیادی فرق ہے، جس کے باعث پاکستان میں آج بھی جدید ڈیٹا سینٹرز کی تعداد نہایت محدود اور ناکافی ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی تعداد کم ہے، بلکہ ان کا معیار اور رسائی بھی اکثر اُن مسائل کا سامنا نہیں کر پاتے جو ایک عالمی سطح کی ٹیکنالوجی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب کبھی ہمیں کسی بین الاقوامی ڈیجیٹل سروس سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ جیسے فیس بک پر کسی مواد کی شکایت درج کرانا ہو تو ہمیں ہر معمولی تکنیکی مسئلے کے لیے بھی بیرونِ ملک واقع ڈیٹا سینٹرز کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔
گویا ہم محض ایک صارف قوم ہیں، فیصلہ سازی یا خودمختاری ہمارے دائرے سے باہر ہے۔
پاکستان میں بجلی کا مہنگا ہونا نہ صرف گھریلو زندگی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اب یہ ہماری ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے راستے میں بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ اگر بجلی سستی نہ ہوئی، یا اس پر سبسڈی نہ دی گئی، تو پاکستان صرف صارف رہے گا، خالق نہیں بن سکے گا۔ ہم صرف دوسرے ممالک کی ایجادات استعمال کریں گے، خود کچھ ایجاد نہیں کر سکیں گے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک اس نئی دنیا میں کچھ کر دکھائے، تو ہمیں بجلی کے نظام پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔
مسئلہ صرف بڑے ڈیٹا سینٹرز یا حکومتی سطح کے انفراسٹرکچر تک محدود نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک عام شہری جو گھر میں بیٹھ کر کسی اے آئی منصوبے میں کام کرنا چاہتا ہے، کیا وہ یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ کیونکہ جب اے آئی سسٹمز یا بھاری کمپیوٹنگ والے پروسیسز ایک گھریلو کمپیوٹر پر چلائے جاتے ہیں، تو اس کا براہ راست اثر بجلی کے بل پر پڑتا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مشین لرننگ یا گرافکس پراسیسنگ جیسے کام جب روزانہ کئی گھنٹوں تک کیے جائیں تو ان کی توانائی کھپت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یوں عام افراد کے لیے اس میدان میں قدم رکھنا مالی بوجھ بن سکتا ہے، اور کئی باصلاحیت نوجوان صرف توانائی کے اخراجات کے باعث اس دوڑ سے باہر ہو سکتے ہیں۔
ان پہلوئوں کے ساتھ ایک ماحولیاتی سوال بھی ابھرتا ہے جس پر دنیا کے کئی تحقیقی ادارے غور کر رہے ہیں۔ کچھ تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بعض ترقی یافتہ ممالک میں زیرِ زمین پانی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ پانی کے یہ ذخائر اگر مسلسل استعمال میں رہیں، تو وہ علاقوں میں ماحولیاتی توازن بگاڑ سکتے ہیں، زیرِ زمین سطح کو نیچے دھکیل سکتے ہیں، اور مستقبل میں پانی کی قلت کو جنم دے سکتے ہیں۔ اس وقت اگرچہ یہ مسئلہ محدود جغرافیائی دائرے تک ہے، لیکن اگر ڈیٹا سینٹرز کی عالمی تعداد اور ان کی طاقت یونہی بڑھتی رہی، تو یہ خطرہ بہت بڑے دائرے تک پھیل سکتا ہے۔
یہ سب حقائق ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیجیٹل ترقی صرف ایک تعلیمی یا تکنیکی موضوع نہیں، یہ ایک قومی اور معاشرتی فیصلہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اس میدان میں محض خریدار نہ رہے بلکہ خالق بنے، تو ہمیں صرف نوجوانوں کو پروگرامنگ سکھانے سے بات آگے بڑھانی ہوگی۔ ہمیں توانائی، پانی، ٹیکنالوجی اور پالیسیاں، سب کو ایک مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت جوڑنا ہو گا۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس اب صرف سائنسی تجربہ یا ریسرچ لیب کا کھیل نہیں رہا بلکہ یہ ایک مکمل اور عالمی صنعت بن چکی ہے۔ جو قومیں اس پر قابو پا لیں گی، وہ آنے والے برسوں میں دنیا کی معیشت اور سیاست کی سمت طے کریں گی۔ اگر پاکستان کو بھی اس دوڑ میں شامل ہونا ہے، تو صرف کوڈ لکھنے والے پیدا کرنا کافی نہیں۔ ہمیں ڈیٹا سینٹرز کے لیے ماحول سازگار بنانا ہو گا، بجلی سستی کرنی ہو گی، پانی کے تحفظ پر کام کرنا ہو گا، اور ایسا ڈیجیٹل ماڈل اختیار کرنا ہو گا جو صرف شہریوں کو صارف نہ بنائے، بلکہ انہیں پیداوار اور ایجاد کے مرکز میں لے آئے۔ ورنہ یہ دوڑ ہم صرف دیکھتے رہیں گے، اور باقی دنیا بہت آگے نکل چکی ہو گی۔







