Columnمحمد مبشر انوار

خوف یا حفظ ما تقدم

خوف یا حفظ ما تقدم
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)

منصف نہیں بلکہ منصفوں کے فیصلے بولا کرتے ہیں، بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہمیں ایسی عدلیہ نہیں ملی کہ جہاں منصفوں کی بجائے منصفوں کے فیصلے بولتے دکھائی دیتے، بلکہ منصفوں نے نظریہ ضرورت کے تحت ریاست کے ایک محکمے لیکن ’’ طاقتور محکمے‘‘ کے ہاتھوں کھلونا بننا قبول کیا، لہذا آج دنیا میں ہمارا انصاف ؍ عدلیہ جس مقام پر موجود ہے، یہ اس کی حقدار ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت دبائو قبول نہ کرنے والے معزز ججز نے گھر جانا قبول کیا لیکن چاکری کی خو رکھنے والوں نے انصاف اور اپنے منصب کو ’’ طاقتوروں‘‘ کے سامنے گروی رکھ کر اپنے لئے دین و دنیا میں رسوائی مقدر کروائی گو کہ منصب تک رہتے ہوئے اور بعد ازاں دنیاوی فوائد ضرور سمیٹے مگر عزت سمیٹنے میں ناکام رہے۔ بعد ازاں تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ آج کہیں بھی جائیں، عدلیہ کے حوالے سے ایسے ناموں کو کہیں نیک نامی نصیب نہیں اور انہیں تاریخ کا کوڑے دان ہی نصیب ہوا ہے، زیادہ دور کیوں جائیں ابھی کل کی بات ہے جب عدل کے ایوانوں میں ایک انتہائی قابل و ذہین و فطین شخص قاضی القضاہ کے عہدہ جلیلہ پر براجمان تھا، مگر منصب کی خواہش میں اپنی تمام تر ذہانت و فطانت طاقت کے محور و مرکز کے سامنے گروی رکھ کر، آج دیار غیر میں مسلسل رسوا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے بھرپور عروج ( فقط منصب پر فائز ہونے کی حد تک کہ اس کا یہ عروج بھی درحقیقت بیساکھیوں کا محتاج تھا) ایک بیکری کے ملازم سے عزت افزائی کروا بیٹھا مگر اپنے کرتوتوں سے باز نہ آیا، بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے بزور اس غریب مگر جرآت و غیرت مند ملازم کے رزق کے درپے ہو گیا، اسے نوکری سے نکلوایا اور اپنی ذلت کا بدلہ یوں اتارا کہ وہ کسی جرآت و غیرت مند کو نوکری دے تو نہیں دے سکتا تھا لیکن چھین کر اپنی کم ظرفی کا اظہار ضرور کر سکتا تھا۔ اس سے تو کہیں بہتر پاکستان کا وہ پہلا آمر تھا کہ جس کے لئے خصوصی اخبارات شائع ہوتے تھے کہ اسے عوام الناس کے روئیے کی خبر نہ ہو تاہم اپنی اولاد کے منہ سے اتفاقا اپنے متعلق عوامی احساسات کو سن کر اقتدار سے الگ ہو گیا لیکن آج کسی ایسے ظرف کی امید، دیوانے کا خواب ہی ہو سکتی ہے کہ آج تو بارش کے موسم میں کہے گئے کلمات پر سوفٹ ویئر تو چوبیس گھنٹے میں اپڈیٹ ہو جاتا ہے مگر عوامی احساسات کے احترام میں گھر جانا کسی کو قبول نہیں، البتہ خوشامدیوں میں گھرے اور ڈھٹائی کا مسلسل مظاہرہ کرتے حکمران ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف اسی عدلیہ کا باوقار، آئین و قانون پسند مرد قلندر ہے، جسے قاضی القضاہ کا منصب تو نصیب نہیں ہوا مگر جو عزت و نیک نامی اس قابل شخص کا نصیب ہوئی، وہ کئی ایک منصب جلیلہ سنبھالنے والوں کے مقدر میں نہیں، جس کا عملی اظہار ناچیز اپنی گنہگار آنکھوں سے مدینہ منورہ میں دیکھ چکا ہے، بہرکیف کون اپنے فرض منصبی میںسَچا اور سْچا ہے، اس کا فیصلہ تاریخ کر دے گی۔ عدل کا ترازو پکڑے، جب مرد قلندر نے فیصلہ دیا کہ مخصوص نشستوں پر حق ایسی سیاسی جماعت کا ہے، جس کو روندنے میں ایک بدنیت و بدطینت شخص نے ذاتی عناد، اس سیاسی جماعت کے مخالف پلڑے میں ڈال کر، اس کے حق سے محروم کیا ہے، تو طاقت کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو گیا اور اسے روکنے کے لئے ہر حد سے تجاوز کیا گیا کہ کسی بھی صورت ایسے شخص کو قاضی القضاہ کے عہدے پر نہیں بٹھایا جا سکتا کہ یہ تو حق اور سچ کا فیصلہ کرے گا، خود بولنے کی بجائے اس کے فیصلے بولیں گے، جو بنے بنائے کھیل کو بگاڑ کر رکھ دیں گے۔ اس وقت تک تحریک انصاف اور اس کے رہنمائوں پر ہر طرح سے ظلم و ستم روا رکھا گیا تھا، ان پر مقدمات کی بھرمار کی جا چکی تھی جن کی اوقات اتنی تھی کہ اگر جج بغیر کسی دبائو حرص یا لالچ کے فیصلے کرتے تو کسی بھی مقدمہ میں سزا ہونا ممکن نہ تھی، مگر مطمع نظر تو اس کے برعکس تھا، پھر کیسے آزاد عدلیہ کیسے گوارا ہوتی؟۔
سیاسی بساط پر گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ مخالفین کی مشکیں کسنے کے لئے سب سے بہترین حربہ یہی ہے کہ ان پر مقدمات کی بھرمار کر دی جائے تا کہ وہ عدالتوں میں ہی سر کھپائی کرتے رہیں اور حکمران با آسانی اپنے اقتدار کے مزے لوٹیں ماسوائے شریف خاندان کے، کہ اس خاندان کی یہ روایت رہی ہے کہ جیسے ہی ان پر مقدمات ہوئے، گو کہ ان کی تعداد معدودے چند ہی رہی، یہ فورا سے پیشتر طاقتوروں کے حضور سجدہ ریز دکھائی دئیے اور معافی تلافی کرکے، سیاسی افق سے کچھ دیر کے لئے غائب رہنے کو ترجیح دی مگر بہرطور اقتدار کے ایوانوں میں ان کی موجودگی کے آثار بہرصورت دکھائی دیتے رہے اور ان کا کوئی بھی کام رکتا نہیں دیکھا گیا۔ بعد ازاں یہی روش آصف علی زرداری و پیپلز پارٹی کو بھی اپناتے دیکھا کہ کس طرح سخت موسم میں کس آسانی کے ساتھ قبلہ بدلا اور اپنا الو سیدھا کئے رکھا، آصف علی زرداری کی شہرہ آفاق تقریر سب کے ذہنوں پر نقش ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم نے کچے چٹھے کھولے تو منہ چھپاتے پھرو گے، تم تین سال کے لئے آتے ہو، ہم نے یہیں رہنا ہے لیکن اس کے بعد آصف علی زرداری باقی ماندہ مدت یو اے ای میں رہائش پذیر رہے تاآنکہ تین سال والا سعودی عرب نہیں چلا گیا۔ سیاسی مقدمات کی یہ تاریخ نئی نہیں بلکہ پاکستان بننے سے ہی اس کے آثار پاکستانی سیاست میں پائے جاتے ہیں، البتہ سیاسی میدان میں ان میں شدت شریف خاندان کے سیاست میں وارد ہونے کے بعد ہی دکھائی دیتی ہے کہ سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے سے ہمیشہ شریف خاندان گریزاں رہا ہے۔ شریف خاندان کی سیاسی جدوجہد، طاقتوروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور جو تھوڑی بہت عوامی حمایت ان کو میسر رہی اس کا کچا چٹھہ برادرم عارف حمید بھٹی اور عمران ریاض خان بارہا اپنے شوز اور وی لاگز میں کر چکے ہیں، جس کی پاداش میں دونوں آج بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، لہذا یہ کہنا کہ شریف خاندان واقعتا کوئی سیاسی خاندان ہے یا اس کی سیاست میں کوئی خدمات ہیں، مستقبل کا مورخ اس کو خلاف حقیقت ہی لکھے گا۔ مرحوم جنرل حمید گل کی جانب سے شریف خاندان کو ’’ جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ فراہم کئے جانے اور آئی جے آئی جیسا اتحاد فراہم کرنے اور ہر طرح کے سیاسی جوڑ توڑ کے بعد بے نظیر کے مقابل کھڑا کرنے کا کریڈٹ جاتا ہے، وگرنہ جو سیاسی شعور شریف خاندان نے آج تک سیاسی میدان میں دکھایا ہے، وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ ’’ رجیم چینج‘‘ کے بعد ایک بار پھر جب قرعہ فال شریف خاندان کے حق میں نکلا اور سیاسی مخالف عمران خان، جو اس وقت تک شریف خاندان کی سیاسی وراثت ’’ تخت لاہور ‘‘ میں نقب لگا چکا تھا، شریف خاندان کی پرانی خو عود کر آئی اور ایک بار پھر سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے، عمران خان پر مقدمات کی بھرمار کر دی گئی کہ اب کی بار مقابلہ ایک ایسے سرپھرے شخص سے تھا، جو ببانگ دہل کہتا ہے کہ ’’ ہارتا وہ ہے، جو ہار مان لے‘‘، جو کہتا ہے کہ وہ آخری گیند تک لڑے گا، جس نے عین شباب میں اپنی خود اعتمادی کا اظہار یوں کیا کہ بھارت کو کھلا چیلنج کیا کہ آئو کشمیر کا فیصلہ کرکٹ کے میدان میں کر لیتے ہیں، کھیل کے ایک ایسے میدان میں کہ جہاں اگلی لمحے کا کوئی علم نہیں کہ کیا سے کیا ہو جائے مگر بھارت کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اس کا یہ چیلنج قبول کر لیتا، اسے زندان میں دھکیل کر بھی شریف خاندان اس کے خوف سے آزاد نہیں ہوا، خیر شریف خاندان پر ہی کیا موقوف کہ عمران خان کے خوف سے شریف خاندان کو لانے والے بھی خوفزدہ ہی دکھائی دیتے ہیں وگرنہ آج اگر واقعتا کوئی سیاسی حکومت ہوتی تو کبھی بھی احتجاج یا تحریک کے اعلان پر ایسے کریک ڈائون نہ کرتی جیسے گزشتہ دو برس سے تحریک انصاف کے کارکنان پر کئے گئے ہیں۔ اس مرتبہ ریاستی محکموں کے علاوہ، عدلیہ کی جانب سے بھی حصہ بقدر جثہ قبل از احتجاج روکنے کی کارروائی میں دکھائی دے رہا ہے کہ نو مئی کے مقدمات میں تحریک انصاف کے بڑے بڑے رہنماؤں کو سزائیں و جرمانے سنائے جا چکے ہیں، سزائیں و جرمانے سنانے پر قطعا کوئی اعتراض نہیں کہ نہ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت ہونی چاہئے، نہ کسی قانون کی خلاف ورزی کی اجازت ہونی چاہئے، بلاامتیاز قانون شکنوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، قانون کی بالا دستی یقینی بنانی چاہئے لیکن ماہرین قانون کے مطابق دی گئی سزائوں میں کئی ایک قانونی سقم موجود ہیں، ایسے قانونی سقم کہ جن کی موجودگی میں ایسی سزائیں دنیا کی کوئی بھی عدالت نہیں سنا سکتی اور مطالبہ یہ ہے کہ قانونی کارروائی ضرور ہو مگر انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہئے، کسی کی خواہش، پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہونے چاہئیں کہ اس سے واضح طور پریہ تاثر ابھرتا ہے کہ دو برس سے منتظر مقدمات کا فیصلہ ایسے مخصوص وقت میں اور اتنی عجلت میں ہونا قطعا انصاف یا قانون کی بالادستی نہیں، بلکہ یہ خوف یا حفظ ماتقدم کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اب یہ بتانے کی ضرورت بھی قطعا نہیں کہ یہ خوف یا حفظ ماتقدم کس کو ہے!!!

جواب دیں

Back to top button