ڈگری یافتہ جہالت: تعلیم مگر تربیت کے بغیر

ڈگری یافتہ جہالت: تعلیم مگر تربیت کے بغیر
تحریر : یاسر دانیال صابری
ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں تعلیم کو صرف ایک کاغذی سند، ایک نوکری کا ذریعہ، یا مقابلہ بازی کی سیڑھی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہم نے تعلیم کو تربیت سے جدا کر دیا ہے، اخلاقی اقدار کو نصاب سے نکال دیا ہے، اور تربیت کو اسکول کی چار دیواری سے باہر کر دیا ہے۔ نتیجہ؟ ایک ایسا معاشرہ جو تعلیم یافتہ تو ہے، مگر تہذیب سے خالی ہے؛ جو ڈگری یافتہ ہے، مگر انسانیت سے نا آشنا۔
جب تعلیم کا مقصد صرف امتحان میں نمبر لینا، یا نوکری حاصل کرنا بن جائے تو اس سے نکلنے والی نسلیں صرف روبوٹ کی مانند کام کرتی ہیں۔ ان کے پاس علم تو ہوتا ہے، مگر شعور نہیں۔ ان کے پاس زبان تو ہوتی ہے، مگر سچ بولنے کی ہمت نہیں۔ ان کے پاس ہاتھ تو ہوتے ہیں، مگر مدد کے لیے نہیں بڑھتے۔ آنکھیں تو ہوتی ہیں، مگر حقیقت دیکھنے سے قاصر۔
ہم نے ایسے ڈاکٹر پیدا کیے جو مریض کی نبض سے پہلے اس کی جیب دیکھتے ہیں، ایسے وکیل جن کی دلیل انصاف کے بجائے دولت کی وفادار ہوتی ہے، اور ایسے استاد جن کی توجہ طالبعلم کے ذہن پر نہیں بلکہ اس کی فیس پر مرکوز ہوتی ہے۔ ہم نے ایسے صحافی پیدا کیے جو حق بیان کرنے کے بجائے مالکان کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں، اور ایسے سرکاری افسر جن کے لیے قوم کی خدمت نہیں بلکہ کرسی کی حفاظت اہم ہوتی ہے۔
تربیت صرف ماں کی گود یا استاد کے کردار سے نہیں آتی، بلکہ یہ پورے معاشرے کے ماحول، میڈیا، نظام تعلیم اور ریاستی پالیسی سے آتی ہے۔ آج ہم نے ماں کی گود کو موبائل کی اسکرین سے بدل دیا ہے، استاد کو کوچنگ سنٹر کے نوٹس تک محدود کر دیا ہے، اور تعلیمی اداروں کو محض فیس لینے والی فیکٹریوں میں بدل دیا ہے۔
معاشرے کا ہر طبقہ آج تربیت کے بحران کا شکار ہے۔ والدین بچوں کو تربیت دینے کے بجائے انہیں اسکول کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اساتذہ تربیت دینے کے بجائے محض نصاب مکمل کرنے میں لگے ہیں۔ حکومت تعلیم کو صرف بجٹ کی مد میں دیکھتی ہے، اور طلبہ تعلیم کو ایک امتحان سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔
سوشل میڈیا پر لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ہر وقت موجود ہیں، مگر ان کے کمنٹس میں گالی، بدتمیزی، اور برداشت کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ یہ تعلیم نہیں، یہ تربیت کا فقدان ہے۔ ایک ایم اے پاس انسان اگر کسی بزرگ کے ساتھ بدتمیزی کرے، یا کسی عورت کی عزت نہ کرے، تو وہ تعلیم یافتہ کہلانے کا حقدار نہیں۔ ہم نے کتابوں سے الفاظ تو سیکھ لیے، مگر اقدار نہیں۔ ہم نے علوم تو جمع کیے، مگر اخلاق کھو دیے۔
اصل المیہ یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کی اصل روح ہی سمجھائی نہیں گئی۔ ہمیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ تعلیم صرف الف، ب، پ یاد کرنا نہیں، بلکہ اپنے نفس کی اصلاح، اپنی شخصیت کی تعمیر اور اپنے کردار کی صفائی ہے۔ ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ تعلیم کے ساتھ اگر تربیت نہ ہو تو وہ تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے، جیسے ایٹم بم کا علم اگر ضمیر کے بغیر ہو، تو ہیروشیما اور ناگاساکی کی شکل میں دنیا دیکھتی ہے۔
آج وقت ہے کہ ہم خود کو، اپنے بچوں کو، اپنے تعلیمی اداروں کو اور اپنے معاشرے کو ایک بار پھر تربیت کی طرف لوٹائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسکولوں میں کردار سازی کو دوبارہ شامل کریں۔ ہمیں چاہیے کہ اساتذہ کو عزت دیں اور تربیت کے لیے تیار کریں۔ ہمیں چاہیے کہ والدین اپنی اولاد کو وقت دیں، صرف موبائل یا پیسہ نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیم کے ساتھ سچائی، دیانت، صبر، برداشت، اور ہمدردی جیسے انسانی اوصاف کی روشنی کو فروغ دیں۔
اگر ہم نے اب بھی تعلیم کو تربیت کے بغیر چلنے دیا تو آنے والا کل صرف ڈگری یافتہ مگر اندھی معاشرتی بربادی کا دن ہوگا۔ ہمیں یہ فیصلہ آج ہی کرنا ہوگا کہ ہم صرف تعلیم چاہتے ہیں یا انسانیت کے ساتھ تعلیم۔







