Column

گریٹر اسرائیل۔۔۔ ایک سراب

گریٹر اسرائیل۔۔۔ ایک سراب
تحریر : خاور عباس خاور

مشرق وسطیٰ کا علاقہ قدیم ادوار سے ہی تنازعات و اختلافات کا گڑھ رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس علاقے کا سب سے اہم موضوع مسئلہ فلسطین ہے جہاں ایک نام نہاد اسرائیلی ریاست نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ متعدد دہائیوں تک فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے بعد 1947ء میں اسرائیل نامی ریاست کا اعلان کیا گیا اور اسی دن سے آج تک اسرائیل کو فلسطین کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ فلسطین ایک ایسا ملک جس کے پاس کوئی فوج نہیں ہے بلکہ محض ایک عوامی تحریک پچھلی سات دہائیوں سے اسرائیل کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں پچھلے سال اسرائیلی حکومت نے زچ ہو کر فلسطین پر ظلم و بربریت کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس ظلم و بربریت کے نتیجے میں اب تک 60ہزار سے زائد لوگ جن میں خواتین و معصوم بچے بھی شامل ہیں بے دردی سے شہید کئے جاچکے ہیں۔
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کا تصور یہ تھا کہ فلسطینی مزاحمت کا راستہ شام سے ہوتا ہوا ایران تک جاتا ہے۔ گویا اگر ایران کی طرف سے فلسطین کے مزاحمتی محاذ کو ملنے والی امداد جو شام کے راستے فلسطین پہنچتی ہے اسے روک دیا جائے تو ہم اس ستر سالہ مزاحمت کا زور توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس ہدف کے تحت انہوں نے شام میں اپنا ایک مہرہ بٹھایا اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کی سانسیں گننے لگ گئے۔
امریکہ، اسرائیل اور پوری غیر مسلم دنیا یہ دیکھ کر مبہوت رہ گئی کہ خطے میں فلسطین کا واحد مخلص دوست شام تھا۔ وہاں بھی اپنا کٹھ پتلی حکمران بٹھانے کے باوجود بھی فلسطینی مزاحمت جوں کی توں باقی ہے۔ 60ہزار شہادتوں کے باوجود بھی فلسطینی مسلمان اپنے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ جب کوئی با ضمیر سیاسی مبصر اس ساری صورتحال کو دیکھتا ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ اسرائیل جو چاروں طرف سے ایسے نام نہاد اسلامی ممالک میں گھرا ہوا ہے جنہوں نے آج تک اسرائیل کے ظلم و ستم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور مسلسل منافقت کا مظاہرہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں صرف ایک ملک شام ہی تھا جو عملی طور فلسطین کی پشت پناہی کرتا تھا اور اب وہ باقاعدہ طور پر امریکی و اسرائیلی لابی کا حصہ بن چکا ہے۔ مطلب خطے میں کوئی اسلامی ملک بھی علی الاعلان فلسطین کی حمایت کا اعلان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری طرف فلسطین ہے جو اسلامی ممالک کی مجرمانہ خاموشی کے باوجود اپنی مزاحمت کو جاری و ساری رکھے ہوئے۔ موجودہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا ایسی صورتحال میں گریٹر اسرائیل کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جانا ممکن ہے؟۔
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ گریٹر اسرائیل کا تصور یہودیوں کی دینی کتب سے ماخوذ ہے اور عام طور پر دینی کتب میں موجود ایسے تصورات زمینی حقائق سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کا ماننا یہ ہے کہ گریٹر اسرائیل کا تصور اب خود اسرائیل کے لیے بھی ایک بے معنی و غیر قابل عمل تصور سے زیادہ نہیں رہا۔ وہ اسرائیل جو امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں کی مکمل و بے دریغ پشت پناہی اور خطے کے نام نہاد منافق اسلامی ممالک کی مجرمانہ حمایت کے باوجود ستر سال سے فلسطین جیسے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر پایا کیا وہ پاکستان و ایران جیسے مضبوط اسلامی ممالک کو زیر کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ ۔
اس سوال کا جواب ہمیں ایران، اسرائیل کی بارہ روزہ جنگ کے اعداد و شمار کو دیکھ کر مل سکتا ہے۔ ایران کے خلاف بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے وہ عالمی میڈیا نے بیان کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسرائیل کا ناقابل شکست ہونے کا تصور نابود ہو کر رہ گیا۔
اب ایسے میں کیا اسرائیل خواب میں بھی سوچ سکتا ہے کہ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کے خلاف کوئی عسکری اقدام کرے اور وہ بھی اس وقت جب وہ اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ ملک بھارت کا حشر دیکھ چکا ہے۔ ظاہر ہے گریٹر اسرائیل کے خواب کو مرحلہ تعبیر تک لانے کے لیے اسرائیل کو یہ سارے پڑائو پار کرنے ہوں گے۔
پھر مشرق وسطیٰ کے تمام اسلامی ممالک جو ابھی تک صرف اس لیے اسرائیل کے ظلم و ستم پر خاموش بیٹھے ہیں کہ اس ظلم و بربریت کا نشانہ فلسطین ہے لیکن ظاہر ہے جب اسرائیل ان ممالک کی طرف بڑھے گا تو پھر وہ بھی خاموش تو نہیں بیٹھیں گے بلکہ اپنا دفاع کرنے کے لیے میدان میں آ جائیں گے۔
سب سے بڑھ کر اسرائیل کے اندر موجود لوگوں کی بے چینی قابل توجہ امر ہے۔ اسرائیل کی اکثر آبادی کو لالچ دے کر یا خوف و ہراس میں مبتلا کر کے دنیا کے دوسرے خطوں اور ممالک سے لا کر اسرائیل میں آباد کیا گیا ہے۔ ایران کے اسرائیل پر جوابی حملوں میں اسرائیلی عوام کی چیخ و پکار یہی تھی کہ ہمیں اس ملک میں نہیں رہنا، ہم اس ملک میں ہر وقت کسی نہ کسی خطرے سے دوچار ہیں، ہمیں اپنے سابقہ ملک میں واپس جانے دو۔ اس قسم کے مطالبات اور تحریکیں ایک عرصے سے اسرائیل میں سرگرم ہیں لیکن چونکہ عالمی میڈیا اسرائیل و امریکہ کا لقمہ خوار ہے اس لیے ان حقائق کو برملا نہیں کیا جاتا۔
چنانچہ مذکورہ بالا اور دوسری متعدد وجوہات کی بنا پر لگتا ایسا ہی ہے کہ اسرائیلی نظریاتی لابی کو اب گریٹر اسرائیل کو لا یعنی سا تصور قرار دے دینا چاہیے جو زمینی حقائق سے کسی بھی زاوئیے سے سازگار نہیں ہے۔ البتہ رات کو اپنے بچوں کو میٹھی نیند سلانے کے لیے اسے ایک کہانی کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button