Aqeel Anjam AwanColumn

پاکستان کا ہائبرڈ نظامِ سیاست

پاکستان کا ہائبرڈ نظامِ سیاست !!
عقیل انجم اعوان
پاکستان کی سیاست کئی دہائیوں سے ایک غیر یقینی صورتِ حال کا شکار رہی ہے۔ کبھی مارشل لا، کبھی عدالتی فیصلے، کبھی سیاسی جوڑ توڑ اور کبھی سڑکوں پر احتجاجی سیاست۔ ان سب کے بیچ ایک ایسا نظام ابھر کر سامنے آیا جسے عرف عام میں ’ ہائبرڈ نظام‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی واضح آئینی ڈھانچہ نہیں، بلکہ ایک عملی توازن ہے جو اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے درمیان سمجھوتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اس نظام کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ بظاہر منتخب حکومتیں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن اصل فیصلہ سازی کی طاقت کہیں اور مرکوز رہتی ہے۔ اس ہائبرڈ نظام میں سیاسی جماعتوں کا کردار محض رسمی رہ گیا ہے۔ ان کی خود مختاری محدود ہو چکی ہے اور فیصلے وہیں تک ممکن ہیں جہاں تک ریاستی ادارے انہیں برداشت کریں۔ ایسے میں جب کوئی سیاسی جماعت تبدیلی یا اصلاحات کی بات کرتی ہے تو یہ ایک علامتی نعرہ ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ اصلاحات اسی وقت ممکن ہوتی ہیں جب ریاستی ادارے اور سیاسی حکومتیں ایک صفحے پر ہوں اور یہ صفحہ اکثر و بیشتر غائب ہوتا ہے۔ ملک کی تین بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف، تینوں اس نظام میں کسی نہ کسی مرحلے پر شامل رہ چکی ہیں اور تینوں نے اس کی قیمت بھی چکائی ہے۔ آج یہ جماعتیں جس الجھن، بے سمتی اور تقسیم کا شکار ہیں وہ اسی نظام کا منطقی نتیجہ ہے۔ مسلم لیگ ن وہ جماعت ہے جو بارہا اقتدار میں آئی، بارہا نکالی گئی اور پھر واپس آئی۔ ان کی پہلی حکومت ایک صدر نے برطرف کی۔ دوسری حکومت کو ایک جنرل نے ہٹا دیا، تیسری بار عدالتوں نے راستہ روکا۔ لیکن یہ جماعت ہر بار واپس آ کر سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس جماعت کی تنظیمی ڈھانچے، ووٹ بینک اور پنجاب میں گہری جڑیں ہیں۔ یہ جماعت بنیادی طور پر معیشت کو متحرک کر کے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ بڑے ترقیاتی منصوبے، انفرا سٹرکچر، صنعت و تجارت اور بجلی کے منصوبے، یہ ان کا خاص میدان رہا ہے۔ لیکن ان تمام پالیسیوں کے پیچھے ایک چیز مشترک رہی وہ ہے قرض۔۔۔ قرض اندرونی ہو یا بیرونی ہر منصوبے کی بنیاد کسی نہ کسی فنانسنگ پر تھی۔ اس ماڈل کی افادیت اس وقت تک برقرار رہی جب تک قرض لینے کی گنجائش موجود تھی۔ آج جب ملک قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور زرمبادلہ کی کمی سنگین ہو چکی ہے تو اس جماعت کے لیے بھی پرانے طریقے سے حکومت چلانا ممکن نہیں رہا۔ اب یہ جماعت محدود وسائل میں اسی پرانے ماڈل کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہے مگر نتائج مختلف نہیں نکل رہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی ایک وقت میں وفاق کی علامت تھی۔ ایوب خان کے بعد، ضیاء الحق کے دور کے بعد اور مشرف کے جانے کے بعد بھی یہی جماعت تھی جس نے اقتدار سنبھالا اور جمہوری عمل کو آگے بڑھایا۔ خاص طور پر بینظیر بھٹو کی واپسی اور بعد ازاں ان کی شہادت کے بعد یہ جماعت نہایت اہم موقع پر اقتدار میں آئی۔ 2008ء سے 2013ء کا دورانیہ سیاسی طور پر بہت پیچیدہ تھا۔ دہشتگردی، عالمی مالیاتی بحران، بھارت کے ساتھ تعلقات، امریکہ کی افغانستان پالیسی یہ سب معاملات ایک ساتھ درپیش تھے۔ پیپلز پارٹی نے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی۔ مخالف جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی، پارلیمان کو مضبوط بنایا، اٹھارہویں ترمیم جیسے اہم فیصلے کیے۔ مگر یہی مفاہمتی انداز وقت کے ساتھ ان کی کمزوری بن گیا۔ عوام نے اسے ایک کمزور اور موقع پرست جماعت کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ یہ جماعت سندھ تک محدود ہو چکی ہے اور قومی سطح پر اس کا اثر کم ہو چکا ہے۔ 2024ء تک آتے آتے پیپلز پارٹی بھی انہی سیاسی سمجھوتوں کا حصہ بن چکی ہے جن کے خلاف کبھی یہ آواز اٹھایا کرتی تھی۔ تیسری بڑی جماعت تحریکِ انصاف نے سیاست میں ایک نئی توانائی پیدا کی۔ نوجوانوں، شہری طبقے اور مڈل کلاس کی ایک بڑی تعداد کو سیاست میں دلچسپی دلانے کا کریڈٹ اس جماعت کو جاتا ہے۔ 2018ء میں جب یہ جماعت اقتدار میں آئی تو اس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی حمایت موجود تھی۔ مگر اقتدار کے دور میں کارکردگی، داخلی انتشار اور عوامی توقعات کے برعکس فیصلوں نے اسے کمزور کر دیا۔ اس دوران معیشت بھی بدتر ہوتی گئی، خارجہ پالیسی میں خاص کامیابیاں نہ ملیں اور داخلی سطح پر بھی حکومت اکثر دفاعی پوزیشن میں رہی۔ پھر جب یہ جماعت اقتدار سے نکالی گئی تو اس نے خود کو نظام کا مخالف کہنا شروع کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ’ ہائبرڈ نظام‘ کا وہ حصہ رہی آج اسی کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اس وقت جیل میں ہیں، تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہو چکا ہے، اور کارکنوں کے لیے یہ واضح نہیں کہ پارٹی کی آئندہ حکمتِ عملی کیا ہو گی۔ مگر اس کے باوجود عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد اب بھی ان کے ساتھ ہے اور یہی ان کی سیاسی طاقت ہے۔ آج کی سیاسی جماعتیں مجموعی طور پر بے سمت دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں، کوئی مربوط بیانیہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا مشترکہ مقصد ہے جس پر سب متفق ہو سکیں۔ 1970ء کی دہائی میں آئین ایک قومی منصوبہ تھا، 1988ء میں انتخابات کا مطالبہ متفقہ تھا اور 2008ء میں میثاقِ جمہوریت نے مختلف جماعتوں کو ایک ساتھ لا کھڑا کیا۔ مگر آج نہ کوئی آئینی اصلاحات ایجنڈے پر ہیں، نہ انتخابی اصلاحات، نہ عدالتی حدود پر گفتگو ہو رہی ہے اور نہ ہی معاشی پالیسی پر قومی اتفاق موجود ہے۔ اس تمام صورت حال کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ سیاست اب محض اقتدار کے گرد گھومتی ہے، نظریات یا عوامی مفاد کے گرد نہیں۔ پارٹیاں اقتدار کے لیے اتحادی بنتی ہیں، پھر ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتی ہیں اور پھر حالات کے تحت دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر آ جاتی ہیں۔ اس طرزِ سیاست نے عوام میں عدم دلچسپی، مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہائبرڈ نظام کے جاری رہنے سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ سیاست سے متعلق سنجیدہ بحثیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ پالیسیاں، معیشت، تعلیم، صحت، قانون ان سب پر بات کرنے کے بجائے بحث صرف الیکشن، گرفتاریوں اور جوابی بیانیے تک محدود ہو چکی ہے۔ میڈیا میں بھی سیاسی گفتگو کا معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے، اور سنجیدہ تجزیہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت ابھی مکمل طور پر مضبوط نہیں ہو سکی وہاں ایک ایسا سیاسی ماحول درکار ہے جو عوام کی ضروریات، آئین کی پاسداری اور ریاستی اداروں کی حدود کے درمیان توازن قائم رکھ سکے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی داخلی صف بندی، پالیسی سازی اور عوام سے تعلق بحال نہیں کرتیں، تب تک کوئی بھی نظام خواہ وہ جمہوری ہو یا ہائبرڈ۔۔۔ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ مستقبل میں اگر کوئی بہتری ممکن ہے تو وہ صرف ایک صورت میں ہو سکتی ہے جب سیاسی جماعتیں خود اپنی اصلاح کریں، نظریات پر مبنی سیاست کو فروغ دیں اور اقتدار کی سیاست سے زیادہ عوامی فلاح پر توجہ دیں۔ اس کے بغیر ہم اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے جس کا انجام پہلے بھی سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بحران اور عوامی مایوسی کی صورت میں نکلتا رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button