چینی مافیا

چینی مافیا
تحریر : امتیاز عاصی
ناظرین آج کل ملک میں چینی مافیا کی سرگرمیوں کا بڑا شورو غوغا ہے۔ یہ مافیا ہر دور میں سرگرم رہتا ہے۔ مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی کی حکومت میں انہیں چینی برآمد کرنے کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ جہانگیر ترین جو سابق وزیر اعظم عمران خان کا بڑا قریبی دوست تھا، عمران خان تو انتخابی مہم کے دوران انہی کا ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے، لیکن ایک بات ضرور ہے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کا دور شوگر ملز والوں کے لئے بھاری ثابت ہوا۔ عمران خان کے دور میں شوگر ملز مالکان کے خلاف مقدمات قائم ہوئے، ورنہ عمران خان چاہتے تو شوگر ملز مالکان خصوصا اپنے دوست جہانگیر ترین کا زیادہ قرب حاصل کر سکتے تھے، لیکن عمران خان نے دوستی کی پروا کی نہ مقدمات واپس لئے۔ چنانچہ اس طرح دونوں کی راہیں ہمیشہ کے لئے جدہ ہو گئیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین نے اپنی دو شوگر ملز کی چینی فروخت کرکے پندرہ ارب روپے کمائے، جبکہ وزیراعظم کے بیٹوں نے تین ارب اکسٹھ کروڑ کمائے۔ مجموعی طور پر شوگر ملز کے مالکان نے تین سو ارب روپے کمائے ہیں۔ یونہی تو نہیں کہتے ملک میں آئین ہے نہ قانون۔ اگر ملک میں قانون کی بالادستی ہوتی تو شوگر ملز کے مالکان اتنے خود سر ہو سکتے تھے جو حکومت کی بات
ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے بہت سے شوگر ملز مالکان نے حکومت سے قرضے لے کر شوگر ملز لگائیں اور بعد میں خسارہ ظاہر کرکے قرضے معاف کرا لئے۔ غریب عوام کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں، نہ انہیں کوئی پوچھنے والا ہے، نہ ان کے خلاف کوئی کھڑا ہونے کو تیار ہے۔ ان ہاتھ اتنے لمبے ہیں مقدمات تو دور کی بات ان سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا۔ سیاست دان اسی لئے تو اقتدار میں آتے ہیں کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ اب سوال ہے چینی برآمد کرنے کی اجازت کس نے دی، کوئی اسے پوچھ سکتا ہے؟۔ اقتدار میں بیٹھے لوگ عوام کے ساتھ اس طرح کے کھیل کھیلیں گے تو کون ان سے باز پرس کر سکتا ہے۔







